ہماری پسماندگی کی اصل وجہ

1017

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ، یہ دو مقدس مقامات مسلمانوں کے لیے ایک ایسا پرامن مرکز ہیں جہاں آپ پوری دنیا کے مسلمانوں سے مل سکتے ہیں، ان سے اظہار خیال کر سکتے ہیں، ان سے ان کے ممالک کی سیاسی، معاشرتی اور معاشی صورتحال حال براہ راست جان سکتے ہیں۔ میں نے بھی جب جب گئی اقوام عالم کے حالات کے بارے میں جاننے کے اس اشتیاق کی آبیاری ضرور کی۔ اپنے حالیہ سفر میں جب مختلف ممالک کی خواتین سے بات چیت کرنے کا موقع ملا تو پتا چلا کہ لوگ پاکستان کے بارے میں کافی حد تک جانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس انٹرنیٹ کے دور میں یہ کچھ مشکل نہیں ہے جیسا کہ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان کے سامنے پاکستان کا کوئی خاص مثبت روپ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کی روز بروز قدر کھوتی کرنسی، بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی، اسٹریٹ کرائم سمیت سب چیزوں کے ذمے دار پاکستان کے سیاستدان ہیں جن کی اقتدار کی ہوس، آپس کی چپقلش کے درمیان ملک پس رہا ہے بلکہ کئی کا تو سوال یہ بھی ہوتا کہ ’’آپ لوگ ایسے سیاستدانوں کو آگے آنے کا موقع ہی کیوں دیتے ہیں جن کے نزدیک اپنی ذات پہلے اور ملک کی اہمیت بعد میں ہے‘‘۔ خیر، ہمارے ملک کو چلانے والے ذمے داران جیسے بھی ہوں یہ کب اچھا لگتا ہے کہ زمانے میں ان کی بدنامی ہو۔ لوگ ان کا ذکر برے الفاظ میں کریں۔ یہ تو ہمارے گھر کے معاملات ہیں جنہیں باہر کے لوگوں سے ذکر کرنا اچھا بھی نہیں لگتا۔ دوسری طرف ہمارے خواص ہیں جنہیں شاید اپنی عزت سنبھال کر رکھنے سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ جگ ہنسائی کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ جس طرح حالیہ ایک واقعہ سوشل میڈیا پر عروج پکڑ چکا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہمارے سابق وفاقی وزیر فواد چودھری عدالت کی جانب سے رہائی کے احکامات موصول ہونے کے بعد عدالت سے نکل کر جیسے ہی اپنی گاڑی میں بیٹھے، سامنے سے پولیس دکھائی دی۔ پولیس کو دیکھتے ہی صاحب بہادر نے گاڑی سے نکل کر عدالت کے احاطے کی طرف ایسے دوڑ لگا دی جیسے مطلوب اشتہاری مجرم پولیس کو دیکھ کر دوڑ لگا دیتا ہے۔ فواد چودھری کی اس بچگانہ حرکت نے دنیا کو پاکستانی سیاستدانوں کا کیا تاثر دیا ہوگا۔ صرف یہاں تک نہیں بلکہ چند دن پیچھے جائیں تو سیاستدانوں کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ پورے ملک میں کچھ ایسے تخریب کے واقعات ہوئے ہیں جن کا تذکرہ کرتے ہوئے قلم ڈگمگائے اور زبان شرمائے۔
نو مئی عمران خان کی گرفتاری پر ہونے والے ہنگاموں میں پی ٹی آئی کے سپورٹرز نے لیڈران کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ ملک بھر میں جو تباہی مچائی اس نے دنیا کے سامنے پوری قوم کا کیا تصور دیا۔ اب دنیا ہمارے بارے میں یہی داستانیں بیان کرے گی کہ یہ پاکستانی آپس کی تفرقہ بازی میں اپنے ملک کے شہداء تک کو معاف نہیں کرتے۔ یہی تو ہم نے دکھایا تھا جب ایم ایم عالم کا وہ یادگار جہاز جلا ڈالا جس کے ذریعے اس بہادر نے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔ ایم ایم عالم اور اس کے جہاز کی نسبت ہی سے تو سرگودھا کو شاہینوں کے شہر کا خطاب ملا۔ یہ بلوائی اخلاقی طور پر اس قدر گر گئے کہ پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی جان دینے والے کیپٹن کرنل شیر خان شہید نشان حیدر کے مجسمے کا پہلے سر تن سے جدا کیا پھر فخر سے اسے ٹکڑے ٹکڑے کرتے رہے۔ یہ شہید جوان، پاکستان کا وہ بہادر تھا جس کی بہادری کی تعریف میں دشمن بھی رطب اللسان تھا۔ لاہور میں پی ٹی آئی کے اہم رکن حماد اظہر کی قیادت میں حملہ آوروں نے کلب چوک پر مین گیٹ، گاڑیوں اور اہم تنصیبات کی توڑ پھوڑ کی۔ فوج اور حساس اداروں کے خلاف گالم گلوچ بھی کی گئی۔ کور کمانڈر ہاؤس جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے، کو جلا ڈالا گیا۔ شرپسند تباہی مچانے کے بعد وہاں سے اپنی من مرضی کا سامان بھی اٹھا کر لے گئے۔ راولپنڈی میں بھی جی-ایچ-کیو کے گیٹ پر حملہ کیا گیا۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا۔ شرپسند سوات موٹروے، سرکاری و نجی املاک کو جلاتے رہے یہاں تک کہ ایمبولینس تک کو نہ چھوڑا گیا۔ عوام کو ہر طرح سے پریشانی اٹھانی پڑی۔ لوگ غیر محفوظ ہوگئے۔ بچوں کے امتحان منسوخ ہوگئے۔ اسکول، کالج، یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں۔ لوگوں کے کاروبار پر برا اثر پڑا۔ ملک کی اسٹاک ایکسچینج مزید خسارے میں گئی۔ پورا ملک ہر طرح سے متاثر ہوا صرف ایک فرد کی خوشی کے لیے۔ اگر باہر کے لوگ ہمارے سیاستدانوں کو ملک کی تنزلی کا ذمے دار ٹھیراتے ہیں، انہیں غیر تربیت یافتہ اور کرپٹ سمجھتے ہیں تو شاید کچھ غلط نہیں کہتے لیکن بات صرف یہ ہے کہ ہمیں اپنی بربادی کے قصے دوسروں کی زبانی سن کر تکلیف ہوتی ہے۔ اگر ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والے اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے والے درست ہو جائیں تو اداروں کی کیا مجال کہ وہ غلطی کریں۔ پھر عدلیہ کے ایوانوں میں بھی عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا اور پولیس بھی عوام کی رکھوالی کرے گی۔ دیگر ادارے بھی جس عوام کے ٹیکس پر پل رہے ہیں اس کی خدمت کا حق ادا کریں گے۔ جب ہم اپنے گھر میں اچھے حالات اور معیشت میں مضبوط ہوں گے تو باہر کے لوگ ہمارے حالات پر ترس نہیں کھائیں گے، ہمیں ہمارے نقائص نہیں بتائیں گے اور ان کی باتیں سن کر ہم اپنے اندر ہی اندر شرمندہ نہیں ہوں گے۔ اب یہ ہم عوام کا کام ہے کہ ہم اپنے حکمران کیسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں۔