وطن عزیز کے حالات جو پہلے بھی مثالی ہرگز نہیں تھے۔ اپوزیشن اور حکومت کے مابین حالیہ اقتدار کی جاری جنگ میں اور زیادہ بد سے بدترین ہوتے چلے جارہے ہیں۔ عدلیہ اور مقتدرہ کو بھی اپنی اپنی بالادستی کے اظہار کی پڑی ہوئی ہے۔ ایسے میں مہنگائی کے مارے بچارے عوام اور زیادہ بدحال، نڈھال اور نیم جان ہو چکے ہیں۔ ایک عام فرد جس کا پہلے بھی کوئی پرسانِ حال نہیں تھا اب خود کو اور بھی زیادہ بے بس لاچار اور بے سہارا سمجھنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ ایسے میں ابھی ابھی صبح صبح ایک عرصے کے بعد کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد میں صفحہ اول پر نمایاں انداز میں چھپنے والی اس خوش کن خبر سے طبیعت قدرے بحال ہوتے ہوئے محسوس ہوئی ہے کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 30 روپے اور پٹرول کی قیمت فی لیٹر 12 روپے کم کر دی ہے۔ لیکن ساتھ ہی وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کا یہ خوش فہمی پر مبنی بیان پڑھ کر بے اختیار ہنسی بھی آگئی جس میں موصوف نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اب ’’ٹرانسپورٹر بھی کرائے میں کمی کر دیں گے اور روزمرہ اشیائے صرف کی قیمتیں بھی گھٹ جائیں گی‘‘۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!!؟ بھلا پاکستان میں بھی ایسا ممکن ہے؟ جہاں حکومت کی رٹ اب برائے نام بھی باقی نہیں رہی ہے۔ اس لیے یقینا عوام، تاجر اور ٹرانسپورٹر سبھی اس بیان کو بہ طور ایک لطیفہ پڑھ کر لطف اندوز ہوں گے اور بس!! آج محاورتاً نہیں بلکہ عملاً اور سچ مچ ہر سرکاری ادارے کا ’’آوے کا آوا‘‘ ہی بگڑا ہوا ہے۔ حکمرانوں کی ڈھٹائی، بے حمیتی، بے حسی اور عیاشیاں جب کہ عوام کی بے بسی، لاچاری، ناداری اور کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے بے اختیار اسرار الحق مجاز (1911ء تا 1955ء) کی کہی ہوئی بے مثال اور لازوال طویل نظم ’’آوارہ‘‘ کے یہ بند ذہن میں گونجنے لگتے ہیں۔
مفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے
سیکڑوں چنگیز و نادر ہیں نظر کے سامنے
سیکڑوں سلطان جابر ہیں نظر کے سامنے
اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟
بڑھ کے اس اندر سبھا کا ساز و ساماں پھونک دوں
اس کا گلشن پھونک دوں، اس کا شبستاں پھونک دوں
تخت سلطاں کیا میں سارا قصر سلطاں پھونک دوں
اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشتِ دل کیا کروں
ابھی کل ہی کی بات ہے اپنے حلیے ہی سے بے حد غریب اور ستم رسیدہ دکھائی دینے والی ایک خاتون مع اپنے دو جڑواں شیر خوار بچوں کے کالج کے مرکزی گیٹ پر کھڑے سیکورٹی گارڈ کو کسی طرح سے جُل دے کر اس کے اسٹاف روم تک آن پہنچی۔ اس کی ایک بیٹی جو اس کے کاندھے سے لگی تھی اس کا سر ڈھکا ہوا تھا اور وہ شدید کم زور اور بیمار دکھائی دے رہی تھی۔ میرے استفسار پر زار وقطار روتے ہوئے کہنے لگی کہ وہ جیکب آباد کے کچے کے ایک گوٹھ سے یہاں تک آئی ہے بیٹی گزشتہ چھے ماہ سے شدید بیمار ہے۔ شوہر بھی بے روزگار اور ٹی بی کا مریض ہے۔ بیمار بیٹی کو کئی مرتبہ جمس (جیکب آباد انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز) اور مقامی سول اسپتال میں بہ غرض علاج لے کر جا چکی ہے۔ بڑی مشکل سے جب باری آتی ہے تو ڈاکٹر حضرات بغیر نبض دیکھے یا طبی معائنہ کیے بس ایک نظر بیمار بچی پر ڈال کر بخار کی دوائی لکھ کر دے دیتے ہیں اور اپنے کمرے سے زبردستی باہر نکال دیتے ہیں۔ آج میں اپنی یہ التجا لے کر آپ کے کالج میں آئی ہوں کہ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے میں پرائیوٹ علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتی بس میری اس بیمار بیٹی کا علاج کرا دیں میں ساری عمر دعاگوں رہوں گی۔ کالج کے اسٹاف نے اس عورت کی آہ و زاری اور بیمار بچی کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے حسب ِ توفیق باہم پیسے جمع کر کے اسے واپس روانہ کر دیا۔
لیکن میں تادیر افسردگی کے عالم میں یہ سوچتا رہا کہ آخر بھاری بھر کم مشاہرے وصول کرنے والے ہمارے معالج اور کروڑوں روپے سالانہ بجٹ کے حامل ہمارے سرکاری طبی ادارے کس مرض کی دوا ہیں۔ ایک شدید بیمار بچی کا درست علاج ہی ان سے نہیں ہو پا رہا ہے تو ان کے قیام اور وجود کا آخر فائدہ ہی کیا ہے؟ اگر ایک طرف ہمارے سرکاری اسپتال اور شعبہ صحت تباہی اور زوال سے دوچار ہے تو دوسری طرف ہمارا تعلیم کا شعبہ بھی مکمل طور سے تباہی اور بربادی سے ہم کنار ہو چکا ہے۔ آج کل صوبہ سندھ میں درجہ نہم اور دہم کے سالانہ امتحانات کے انعقاد ہو رہا ہے لیکن یہ سارا امتحانی عمل ایک سنگین مذاق کے مترادف ہے جس میں نقل اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ طلبہ اور طالبات کو نقل کروانے کے لیے والدین، اساتذہ اور خود طلبہ و طالبات نے موبائل پر واٹس ایپ گروپ تشکیل دے رکھے ہیں اور ’’کاپی کلچر‘‘ کی انتہا یہ ہے کہ امتحان ہال میں طلبہ و طالبات بے خوف و خطر اپنے اپنے موبائل پر سرجھکائے نقل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ نقل کی روک تھام کے لیے مقرر کردہ بورڈ کی ٹیمیں صرف ٹی اے، ڈی اے وصول کرنے کے لیے امتحانی سینٹرز کا دورہ کرنے تشریف لاتی ہیں اور اسکول کے دفاتر میں بیٹھ کر کھا پی کر رخصت ہو جاتی ہیں۔ غرض یہ ہے کہ اس دور مسابقت میں بھی ہم خود اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو دھکا دینے میں مصروف ہیں اور وہ بھی بڑے دھڑلے کے ساتھ اہل دنیا خلائوں کو تسخیر کر رہے ہیں۔ ستاروں پر کمند ڈال رہے ہیں اور ہم اپنے بچوںکو نقل کروانے کی خاطر واٹس ایپ کا استعمال کس مکروہ اور گھنائونے انداز میں کر رہے ہیں۔ گستاخی معاف ہمارے ایک طرح سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ حکومت کو موردِ الزام ٹھیرانے کے ساتھ ساتھ خود ہمیں اپنا احتساب اور موخذاہ بھی تو کرنا چاہیے۔ یہ جانتے بوجھتے بھی ایسی تحاریر لکھنے کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا راقم اپنے دل کا بوجھ کم کرنے کے لیے دل کے پھپھولے پھوڑنے کی سعی ناکام کر رہے ہے۔ بہ قول شاعر اختر سعید خان
کوئی پرسان وفا ہے نہ پشیمان جفا
زخم ہم اپنے دکھائیں تو دکھائیں کس کو؟
کون اس شہر میں سنتا ہے فغان درویش
اپنی آشفتہ بیانی سے رلائیں کس کو؟