ایل جی بی ٹی قانون اور نابالغ اذہان

1227

حزب الشیطان کی ناٹو مضمون میں مشہور محقق عائشہ غازی نے چند ایسے چشم کشا حقائق بیان کیے جن کا جاننا بحیثیت پاکستانی ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ نئے پڑھنے والے افراد کے لیے عائشہ غازی کا تعارف بھی ضروری ہے۔ عائشہ غازی ایک صحافی، وکیل، ماہر حیاتیات، شاعرہ اور سماجی کارکن ہیں۔ عائشہ زیادہ تر اپنی دستاویزی فلموں کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے لوگوں کے حقوق پر دستاویزی فلمیں بنائی ہیں اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے۔ ان کی زیادہ تر دستاویزی فلموں کا موضوع متاثرین ڈرون حملے، متاثرین وزیرستان، تھر کے رہائشی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے محبت کرنے والے عنوانات اور پاکستان کو ہونے والے مضمرات کا بہت خوبصورتی سے جائزہ لیتی ہیں۔ انہوں نے ایل جی بی ٹی کے حوالے سے حالیہ تحقیقی مضمون میں جو باتیں اور انکشافات کیے بحیثیت پاکستانی آج ہرہر فرد کو جاننا اور اپنے خاندان کو اس ناسور سے بچانا بہت ضروری ہے۔ بقول عائشہ غازی
ایل جی بی ٹی ایک طاقتور اور تباہ کن طوفان ہے۔ حزب الشیطان کی ناٹو ہم پر حملہ آور ہے۔ اور ہماری اکثریت اس جنگ سے لاعلم ہے۔ فتنے کا پہلو یہ ہے کہ مرد مرد نہ رہے اور عورت عورت نہ رہے۔ معاشرتی ذمے داریوں کی حد تک تو یہ ہدف حاصل ہو چکا ہے، اب جسمانی ساخت کی باری ہے۔ پہلے مردوں کو عورت اور عورتوں کو مرد بننے کی طبی سہولت دی گئی۔ بات یہاں سے ہوتی یہاں تک پہنچی کہ اب مغربی ممالک میں لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ روازنہ اپنے ’’رجحان‘‘ کی بنیاد پر اپنی جنس کا اعلان کر سکتے ہیں اور جو وہ اپنی جنس کے بارے کہہ دیں اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔ دوسری طرف جو ابھی اپنی قدرتی جنس پر قائم رہنے کے حق میں ہیں، ان کے لیے جو اہل دین ہیں، ان کے لیے کم بچے خوشحال گھرانہ کا سلوگن ہے۔ تیسری طرف دادا دادی نانا نانی کو خاندان سے باہر کر کے سب سے پہلے بچوں کی ایک حفاظتی دیوار گرائی گئی، پھر طلاق کا رجحان بڑھا کر بچے خاندانی نظام سے باہر نکال کر سنگل مدَر یا سنگل فادر کے ذمے کیے گئے۔ کسی خزانے کی آدھی دیواریں گرا دیں تو اس تک رسائی آسان ہے۔
ایل جی بی ٹی جنگ کے تانے بانے صرف جنسی بے راہ روی آسان کر کے عورت کو خاندان کے تحفظ سے باہر لانا اور اسے مارکیٹ پروڈکٹ یا آبجیکٹ فار ہائر بنا کر اس سے پیسے کمانا نہیں ہے۔ یہ تو اس کا صرف ایک پہلو، ایک آسان ترین ہدف ہے۔ اس کا سب سے خوفناک ہدف بچے ہیں۔ انہیں صرف عورتیں نہیں چاہئیں، انہیں بچے چاہئیں ہیں جو حفاظتی دیواروں سے باہر ہوں۔ بچے کیوں چاہئیں؟ اس کا جواب دل دہلا دینے والا ہے اور یہ شیطانی مذہب اور ایلومیناتی تنظیم کی خفیہ رسوم میں بچوں کے استعمال سے لے کر انسانی اعضاء کی فروخت کے بین الاقوامی دھندے تک تہہ در تہہ پھیلا ہوا ہے۔ ڈراموں اور جوائے لینڈ جیسی فلموں کے ذریعے ان تمام افعال کو جواز فراہم کیا جارہا ہے، تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے ذریعے بھی اذہان تیار کیے جا رہے ہیں۔ اب ان تمام افعال کو پاکستان میں قانونی جواز اور راستے فراہم کیے جارہے ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ چند دن پہلے جو بائیڈن نے ’’پاکستان میں انگریزی کے ان اساتذہ کے لیے پانچ لاکھ ڈالر گرانٹ‘‘ کا اعلان کیا ہے جو ’’ٹرانس جینڈر نوجوانوں‘‘ پر فوکس کریں گے۔ یاد رہے کہ ٹرانس جینڈر وہ ہیں جو اپنی قدرتی جنس تبدیل کروا کر دوسری جنس اختیار کرتے ہیں۔ اس خبر کا سب سے خوفناک پہلو ہیڈ لائن کے نیچے چھوٹے فونٹ سائز میں ہے کہ یہ گرانٹ وصول کرنے والے ’’تیرہ‘‘ سال سے پچیس سال کے جوانوں پر یہ پروگرام لاگو کریں گے۔ اب تک آپ کو اس فتنے کی حساسیت کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔
اس مضمون سے یہ بات تو اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ ایل جی بی ٹی کا اثر کس طرح نابالغ اور کچے اذہان پر کس طرح راسخ کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ان اساتذہ اور گرانٹس اور مختلف الائونس دیے جارہے ہیں کہ کس طرح ایک استاد یہ الائونس ملنے کے بعد پوری تندہی اور محنت سے مسلمان بچے اور نوجوانوں کا دماغ پوری طرح ایل جی بی ٹی کے فتنے کو قابل قبول بنادے گا اور اسے حزب الشیطان میں شامل کروا دے گا۔ ویسے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کے بند کو باندھنے میں حکومت سو فی صد بے بس نظر آتی ہے۔ اب اس طرح کی غیر ملکی امداد کے ذریعے مسلمانوں سے حلال حرام کی تمیز بھی ختم کی جارہی ہے۔ معلم کا پیشہ جو ایک مقدس پیشہ ہے اس کی حرمت کو ختم اور اس کی ناموس کو تباہ کرنے کے لیے جس طرح غیر ملکی امداد دے اساتذہ کو ان کے مقدس فریضے میں حرام کا تخم بویا جارہا ہے ارباب اختیار اور ذرائع ابلاغ کے رہنماؤں کو اس مسئلے کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا۔ اپنی نسل کو بچانے کی ہر ممکن اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر آپ بھی حزب اللہ کے کیمپ میں شامل ہیں تو اس بات کا ثبوت دیں اپنے قلبی، قولی، قلمی، دلی اور ذہنی اظہار کے ذریعے حزب اللہ کے دست بازو بن جائیں۔ جس طرح بھی آپ اس فتنے کی ریشہ دوانیوں سے بچوں بڑوں کو آگاہ کرسکتے ہیں بھرپور کوشش کیجیے۔ کم از کم طاغوت کی لگائی ہوئی آگ میں اس معصوم چڑیا کا کردار کریں جو اپنی چونچ میں پانی لاتی اور نمرود کی لگائی ہوئی آگ میں ڈال دیتی تاکہ روز قیامت اس کا نام آگ بجھانے والوں میں آجائے۔ہمارے حصے کا کام یہی ہے کہ اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں۔ کیونکہ طاغوت کے تمام لشکر تیار، تمام مورچے آباد اور تمام ہتھیار کسے جاچکے ہیں۔