ـ7مئی کو ہم پر کیا گزری؟

875

7مئی کو کورنگی ٹائون کی UC-2 مخدوم بلاول میں ضمنی بلدیاتی انتخابات ہورہے تھے۔ اس پولنگ اسٹیشن کے لیے پولنگ ایجنٹ اور پولنگ کیمپ کی ذمے داری جماعت اسلامی حلقہ البدر کے کارکنان کو تفویض کی گئی۔ الحمدللہ دن بھر بلدیاتی انتخابی عمل پرامن چلتا رہا، شام 5 بجے جب پولنگ ختم ہوئی تو مخدوم بلاول سوسائٹی کے پولنگ اسٹیشن میں موجود پولنگ کے عملے نے بیلٹ باکس میں کچھ بیلٹ پیپرز ڈالنے چاہے، جس پر وہاں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر پارٹیوں کے تمام پولنگ ایجنٹوں نے اعتراض کیا مگر ان کا اعتراض رد کردیا گیا۔ اس پولنگ اسٹیشن میں دھاندلی کا منصوبہ ابتدا ہی سے نظر آرہا تھا کیونکہ پولنگ اسٹیشن کے لیے موجود عمارت بہت چھوٹی تھی، پہلے تو پولنگ کے عملے نے چاہا کہ پولنگ ایجنٹوں کو کمروں سے باہر ہی رکھا جائے مگر پھر صرف چیئرمین کے پولنگ ایجنٹوں کو کمروں میں بٹھایا گیا۔ حالاں کہ اس وارڈ کے لیے کونسلر کا انتخاب بھی ہورہا تھا مگر وارڈ کونسلر کے پولنگ ایجنٹوں کو واپس کردیا گیا۔
جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی یہ نکتہ اُٹھایا گیا کہ جو بیلٹ پیپرز جاری کیے گئے ان کی تعداد اور دھاندلی کے بعد نکلنے والے بیلٹ پیپروں کی تعداد میں 200 کا فرق ہے۔ یاد رہے کہ یہاں وارڈ کونسلر کا انتخاب بھی ہورہا تھا، صرف چیئرمین اور وائس چیئرمین کے ووٹ 200 سے زیادہ تھے۔ اعتراض تکرار میں بدل گیا تو پولیس نے بلاوجہ مداخلت کرتے ہوئے پولنگ ایجنٹوں کو مارنا اور پولنگ اسٹیشن سے نکالنا شروع کردیا۔ جب اس کی اطلاع باہر کیمپوں پر پہنچی تو وائس چیئرمین منصور فیروز نے اندر آکر کہا کہ ہمارا موقف سنا جائے اور وہ الیکشن کے عملے سے متعلق ہے مگر پولیس نے انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا اور لاٹھیاں بھی برسائیں۔ شام ساڑھے 7 بجے کے قریب ایک بس اور تین چار موبائلوں میں مزید پولیس والے آگئے، انہوں نے معاملہ سمجھنے کے بجائے وہاں موجود لوگوں پر لاٹھیاں برسائیں اور ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے خوف و ہراس کی فضا قائم کردی اور اس دوران پولنگ اسٹیشن کے اندر من پسند نتائج تیار کیے جاتے رہے۔
دوسری طرف اسی یوسی کے الطاف ٹائون کے 3 پولنگ اسٹیشنوں میں جو ایک ہی عمارت میں موجود تھے تمام پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال کر من پسند نتائج ترتیب دیے گئے۔ اس پورے واقعے میں پولیس کی تعداد تمام سیاسی کارکنوں سے کافی زیادہ تھی۔ پولیس گردی کا آغاز ہوا، نہتے کارکنوں پر لاٹھیاں برسائی جانے لگیں۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی، فائرنگ بھی شروع ہوگئی، لوگ جان بچانے کے لیے بھاگے، جو گرتا پولیس اس پر ٹوٹ پڑتی، پھر میرے گھر زخمیوں کو تانتا بندھ گیا۔ سب سے پہلے میرا بھتیجا محمد عثمان آیا جس کے کاندھے اور کمر پر زخموں کے نشان تھے۔ چوٹوں پر برف سے سکائی اور پین کلر دی، کچھ ہی دیر بعد میرا بھانجا عبدالرحمن آیا، اس کی ٹانگ پر شدید چوٹ تھی وہ چلنے کے قابل نہ تھا اسے سہارا دے کر لایا گیا۔ اس نے بتایا کہ پولیس والے کی لاٹھی ٹوٹ گئی ورنہ نہ جانے میرا کیا حال ہوتا۔ اسے بھی پین کلر کا انجکشن دیا۔ اس دوران بھتیجا انس رضوان بھی آگیا اس کے بھی کافی چوٹیں آئی تھیں ابھی اس کی دوا دارو سے فارغ نہ ہوا تھا کہ دوسرا بھتیجا احسن عبداللہ آگیا اس کی کمر
اور بازو پر چوٹیں لگی تھیں جبکہ سڑک پر گرجانے کی وجہ سے جابجا خراشیں آئی تھیں اسے ATS اور پین کلر کے انجکشن لگوائے۔ میرا بیٹا زید عاصم اور بھتیجے طلحہ عمار اور وقاص احمد بھی زخمی حالت میں لائے گئے انہیں دوائیں دیں تو کارکن محمد عتیق شدید زخمی حالت میں لائے گئے، ان کے کپڑے پھٹے تھے اور بازو سے ہتھیلی تک زخم نمایاں تھا۔ لگتا تھا کسی نوک دار چیز سے زخم لگا ہے، پائیوڈین سے صفائی کرکے بینڈیج کی اور ATS اور پین کلر انجکشن لگائے، ابھی اس سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ کارکن محمد یونس اور جنید قریشی لائے گئے۔ یہ دونوں گر گئے تھے اور پولیس نے ان پر بھی لاٹھیاں برسادیں، درد اور تکلیف سے یہ دونوں کراہ رہے تھے، ابھی انہیں دوا نہ دے پایا تھا کہ حسان، سہیل اعوان، ریحان قریشی اور محمد عارف مجروح حالت میں آگئے۔ پین کلر کھلاتے ہوئے یہ خیال بھی کرنا پڑ رہا تھا کہ زخمیوں کو کچھ نہ کچھ کھلا دیا جائے، یوں رات ساڑھے 12 بجے تک زخمیوں کی آمد اور علاج معالجہ کا سلسلہ جاری رہا۔
اسی دوران ایک عجیب بات یہ سامنے آئی کہ میری ڈھائی سالہ پوتی منہہ فاطمہ نے جب اپنے چچائوں کو زخمی حالت میں دیکھا تو ہاتھ ہلا ہلا کر غم و غصہ کا اظہار کرنے لگی۔ چھوٹے سے ذہن میں کیا کیا سوچا وہ زور زور سے کہنے لگی پولیس والے گندے ہوتے ہیں انہیں گولی مار دوں گی۔ میں سوچنے لگا کہ پولیس والوں کے ناروا اور غیر انسانی سلوک سے اس چھوٹے سے ذہن پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں وہ آگے چل کر اسے پولیس سے مزید متفر بنائیں گے۔ اسی دوران امیر ضلع کورنگی مولانا عبدالجمیل خان ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر، رینجرز اور دیگر اداروں کو فون کرکے مدد کے متمنی رہے مگر کسی ادارے کے کان پر جوں نہ رینگی، دہشت اور درندگی کا بازار گرم رہا۔ جب یہ تمام زخمی درد کی وجہ سے کراہ رہے تھے تو میں نے مشورہ دیا کہ میرے بچوں ظالموں کے بارے میں اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرو اور جن لوگوں نے تم پر لاٹھیاں برسائی ہیں ان کے لیے بددعائیں کرو۔
ان واقعات کی ویڈیوز اور فوٹو گرافس موجود ہیں جن میں پولیس والوں کو نہتے عوام پر لاٹھیاں برساتے دیکھا جاسکتا ہے، اس تمام واقعے کے تناظر میں، میں یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں کہ لوگ پولیس والوں کے مرنے یا زخمی ہونے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیوں نہیں کرتے، یقینا ان کے غیر انسانی اور جانبدارانہ سلوک کی وجہ سے عوام کی ہمدردیاں پولیس والوں کے ساتھ نہیں۔ اس رویے میں تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ پولیس مہذب انسان دوست، ہمدردانہ اور غیر جانبدارانہ رویہ اپنائے۔ یہاں الیکشن کمیشن سے بھی گزارش ہے کہ انتخابی عمل کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ الیکشن کمیشن کے عملے نے بھی جعلی ووٹنگ میں خود حصہ لیا اس لیے میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ تمام عملے کو مسجد میں بٹھا کر قرآن کریم پکڑا کر حلفیہ طور پر پوچھا جائے کہ کیا انتخابی عمل درست تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ایک مرتبہ اس روایت پر عمل کیا گیا تو آئندہ دھاندلی کے امکانات معدوم ہوجائیں گے، ان شاء اللہ۔ میں نے اپنا مؤقف پیش کردیا ہے، پولیس اور الیکشن کمیشن کے ذمے داران چاہیں تو دنیا ہی میں اپنی اصلاح کرلیں ورنہ یاد رکھیں کہ ہم سب کو مرنا ہے اور روز قیامت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش بھی ہونا ہے تو وہاں کیا جواب دیں گے؟