اختیارات اور وسائل کو نچلی سطح پر منتقل کرنے عوام کے بنیادی اور گلی محلے کے مسائل حل کرنے میں بلدیاتی انتخابات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس سے ایک طرف مسائل کے حل میں پیش قدمی ہوتی ہے تو دوسری جانب نئی و تجربہ کار قیادت بھی تیاری ہوتی ہے۔ اگر اختیار و وسائل کے بہتر استعمال کے حوالے سے چیک اینڈ بیلنس اور کرپشن فری نظام ہو تو پھر معاملہ سونے پر سہاگے کی مانند ہوجاتا ہے کیونکہ وطن عزیز کے دیگر شعبہ کی طرح بلدیاتی اداروں میں بھی بہت زیادہ کرپشن کا عنصر پایا جاتا ہے یہی وجہ کہ بعض سرمایہ دار و طاقتور بااثرلوگ بلدیاتی انتخابات کو ملک و قوم کی خدمت نہیں بلکہ انتخابات میں لگا ہوا پیسہ سود کے ساتھ وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض وڈیرے اس میں جیت کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھ کر ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں پیسہ دھونس و دھاندلی سمیت اس کے لیے جو ممکن ہوسکتا ہے نتائج کی پروا کیے بغیر وہ کر گزرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایوان بالا ہو، عام یا بلدیاتی انتخابات ہوں اسے میرٹ وقابلیت کے بجائے طاقت وپیسہ کا کھیل بنادیا گیا ہے حتیٰ کہ صبح وشام جمہوریت کا راگ الآپنے والی سیاسی جماعتیں بھی میرٹ کے بجائے ایسے فرد کو ٹکٹ جاری کرتی ہیں جو ہر حال میں جیت کر دکھائے، اس طرح کے نمائندے لوٹا کریسی، کرپشن قبضہ گیری کو فروغ دیتے ہیں پھر نتیجہ پوری قوم کے سامنے ہے۔
جس طرح ملک کے آئین میں ہے کہ اسمبلیاں ختم ہونے یا ٹوٹنے پر نوے روز میں انتخابات ہونے چاہئیں بالکل اسی طرح مدت مکمل ہونے پر آرٹیکل 140-A کے تحت مقامی حکومتوں کا قیام اور بلدیاتی اداروں کا باقاعدگی سے انتخاب بھی آئینی تقاضا ہے اس حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ آئین کی حکمرانی وجمہوریت کی دعویدار سیاسی پارٹیاں بلدیاتی انتخابات کرانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔ صوبہ سندھ میں بھی کم و بیش یہی صورتحال رہی۔ پچھلی بلدیاتی حکومتیں ختم ہوئے بڑا عرصہ گزرجانے کے باوجود 15 سال سے سندھ پر برسر اقتدار پیپلزپارٹی کی حکومت مسلسل آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کبھی سیلاب تو کبھی امن وامان کا مسئلہ بناکر بلدیاتی انتخابات کو ٹالتی چلی آرہی ہے۔ عدالتی احکامات اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے دباؤ کے بعد سندھ میں دو مرحلوں میں انتخابات کرائے گئے۔ اس میں بھی خرید وفروخت سے لیکر من پسند حلقہ بندیاں ووٹر لسٹ اور پولنگ عملہ و حکومتی اثر رسوخ کس طرح استعمال کیا گیا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ مثال کے طور پر ایک یوسی 60 ہزار ووٹرز پر مشتمل ہے تو دوسری یونین کونسل 17 سے 20 ہزار پر بنائی گئی۔ کوئی ٹائون بڑی آبادی کے باوجود چند یونین کونسل جبکہ حکومتی زیر اثر علاقے کی آبادی کم ہونے کے باوجود زیادہ یونین کونسل پر مشتمل ٹاؤن بنادیا گیا۔ پہلے نظام میں گلشن اقبال ٹائون کا حصہ رہنے والی یوسی گجرو (سہراب گوٹھ احسن آباد نیو سبزی منڈی) کو 8 یونین کونسلیں بنا کر سہراب گوٹھ ٹائون بنادیا گیا۔ 2018 ء کے انتخابات میں اسی ایک یونین کونسل پر مشتمل حلقہ سے پی ٹی آئی کے سندھ اسمبلی میں موجودہ اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ چند ہزار ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے تھے۔ اس سے اندازہ کریں کس طرح من پسند امیدواروں کو منتخب کرانے کے لیے چیزوں کو مینج کیا گیا۔ اس ساری صورتحال کے باوجود بالآخر اللہ اللہ کرکے دونوں مراحل میں بلدیاتی انتخابات پایہ تکمیل کو پہنچے مگر منتخب بلدیاتی نمائندوں کی تقریب حلف برداری ہوئی اور نہ ہی اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوسکے ہیں۔ اسی طرح بلدیاتی نمائندوں کو اپنے حلف اختیار اور وسائل سے محروم رکھا گیا ہے جو سراسر نا انصافی اور عوام کو حقوق سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔ آج اگر منتخب نمائندے سرگرم اختیارات سمیت بحال ہوتے تو صحت تعلیم سمیت عوام کے کچھ نہ کچھ مسائل حل ہو سکتے تھے۔
بلدیاتی نظام پرگہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو سیاسی تماشا گزشتہ کئی عشروں سے لگایا جا رہا ہے اس میں مقامی حکومتوں کا نظام بھی ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں اس مقامی نظام حکومت کو جمہوریت کی بنیادی اکائی سمجھتی ہیں، جس کے بغیر جمہوریت مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں ہو سکتی، لیکن اگر ان مقامی حکومتوں کے ساتھ کسی نے سب سے بڑا استحصال کیا ہے تو وہ برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعتیں ہیں، جنہوں نے اس نظام کو کمزور کیا ہے۔ ملک میں چند سال پہلے اور اب جو مقامی حکومتوں کے الیکشن ہوئے، بالخصوص سندھ میں وہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت کی خواہش سے زیادہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے اور اپوزیشن جماعتوں کے دبائو کا نتیجہ تھے۔ 1973ء کے آئین کے تحت تمام صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ آئین کی شق 140-A کے تحت نہ صرف بروقت مقامی نظام کے الیکشن کو یقینی بنائیں، بلکہ اس نظام کو آئین و دستور کے تحت سیاسی، انتظامی اور مالی خود مختاری بھی دیں۔ اگر دیانت داری سے موجودہ مقامی حکومتوں کے نظام کے آئین کی شق 140-A کے تحت جائزہ لیا جائے تو یہ نظام اس دستور کی نفی کرتا ہے۔ سندھ میں حیدرآباد سے لیکر کشمور تک حکومتی جماعت کے حمایت یافتہ نمائندے بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جبکہ کراچی میں ووٹ کے حساب سے جماعت اسلامی نمبر ون پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔
پیپلزپارٹی نے بھی ہفتہ 13مئی کو آئی آئی چندریگر روڈ پر جلسہ کرکے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی کامیابی پرجشن منایا۔ پارٹی چیئرمین بلاول زرداری نے خصوصی شرکت کی۔ اس جشن فتح سے دوران خطاب ان کا کہنا یہ تھا کہ بلدیاتی الیکشن تاریخی الیکشن تھے، کراچی سے کشمور تک جیالوں کی حکومت ہوگی۔ ان کے بقول پیپلز پارٹی الیکشن لڑنا بھی جانتی ہے اور جیتنا بھی جانتی ہے، ان کا دعویٰ تھا کہ صوبائی حکومت اور بلدیاتی انتخابات میں جیت کے بعد وفاق بھی پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات میں فتح کے بعد اختیارات نچلی سطح تک پہنچائیں گے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اسپتالوں کے نظام کو نچلی سطح پر لے کر جائیں گے۔
دوسری جانب امیر جماعت اسلامی کراچی اور اپوزیشن کی جانب سے میئر کے مضبوط امیدوار حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی حکومتی جبر وتشدد الیکشن پر قبضے کے باوجود اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ خریدو فروخت جو بھی کرے گا وہ اپنے ہی منہ پر کالک ملے گا، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے، کراچی کا میئر ہمارا ہی ہو گا۔ بلاول زرداری جمہوریت کے نام پر فاشزم مسلط کرنے، ریاستی جبر و تشدد اور الیکشن پر قبضہ کر کے عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالنے اور مردم شماری میں کراچی کی آدھی آبادی کو ایک بار پھر قتل کرنے کا جشن منا رہے ہیں۔ اہل کراچی پیپلز پارٹی کی کراچی دشمنی سے آگاہ ہیں اور اس سے نفرت کرتے ہیں 15جنوری اور 7مئی کو اس فاشسٹ پارٹی کو مسترد کر چکے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کے بقول ہماری تجویز تھی کہ کراچی میں میئر کا انتخاب براہ راست کیا جائے لیکن اسے نہیں مانا گیا، کسی بھی فرد کے میئر کے انتخاب میں حصہ لینے کے ہم خلاف نہیں لیکن جب میئر کے انتخاب کا وقت قریب آگیا ہے اس طرح کی ترامیم کرنا بدنیتی اور من پسند نتائج حاصل کرنے کی کوشش ہے، جماعت اسلامی میئر کے انتخاب کے حوالے سے از سر نو دیگر پارٹیوں سے بھی رابطے کرے گی۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ملنے سے ہمارے ووٹ191ہو جائیں گے جبکہ پیپلز پارٹی کو ہر صورت میں 24ووٹوں کی ضرورت ہوگی جس کے لیے وہ خرید و فروخت کرے گی، پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کراچی میں جیالا میئر آجائے اس کے لیے اس نے شروع ہی سے غیر جمہوری ہتھکنڈے اختیار کیے اور سندھ حکومت کے تمام اختیارات و وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا، سب سے پہلے حلقہ بندیوں میں جعل سازی کی اور جب 15 جنوری کو اسے بد ترین شکست ہو گئی تو اس نے آر اوز اور ڈی آراوز کے ساتھ مل کر نتائج میں تبدیلی اور دھاندلی کی اور ہماری جیتی ہوئی سیٹوں پر ڈاکا ڈالا، دوبارہ گنتی کے نام پر سیٹیں چھینی گئیں اور الیکشن کمیشن اس پورے عمل میں پیپلز پارٹی کا آلہ کار بنا رہا، 7مئی کو ملتوی شدہ نشستوں پر تو پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے بد ترین ریاستی جبر و تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوئے فسطائیت کی انتہا کر دی، ہمارے کیمپوں پر مسلح حملے کیے گئے اور کارکنوں کو زخمی کیا گیا۔
ان تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن پھر بھی چاہتی ہے کہ کراچی پر کسی نہ کسی طرح اپنا جیالا میئر مسلط کر دے۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 28جون 2022 دوسرا مرحلہ 15 جنوری2023 جبکہ 7 مئی کو باقی رہ جانے والی نشستوں پر بھی ضمنی انتخابات ہوچکے ہیں۔ کم و بیش ایک سال ہونے والا ہے مگر تاحال بلدیاتی نمائندے اپنے اختیارات کے منتظر ہیں! اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بلا تاخیر کراچی تا کشمور منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اختیار اور وسائل فراہم کرے تاکہ وہ ملک وقوم کی خدمت اور عوام کے اعتماد پر بھی پورا اتر سکیں۔