پاکستان میں سیاست اور سیاسی منظر پر روز اول سے اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ رہا ہے اس لیے جب بھی اس حاکمیت کو سیاسی شراکت اور سیاسی شناخت دینے کی ضرورت پڑی ایک سیاسی پروجیکٹ شروع کیا جاتا رہا۔ چھوٹے سیاسی پروجیکٹس کی بات کی جائے تو بات یونین کونسل یا ایوب خان کے بی ڈی ارکان کی سطح سے شروع کرنی پڑے گی مگر بڑے سیاسی پروجیکٹس کی کہانی ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے شروع ہوتی ہے۔ سیاسی تجربات کی یہ کہانی کس انجام سے دوچار ہوئی تاریخ گواہ ہے۔ اس کے بعد نواز شریف پروجیکٹ کا تجربہ بھی کھٹا میٹھا رہا مگر اس پروجیکٹ میں کوئی بڑا حادثہ اس بنا ہر رونما نہ ہوا کہ نوازشریف کھڑا ہونے کی بے تاب خواہش رکھنے کے باوجود وقت قیام سجدے میں گرجانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان کے تعلقات اسٹیبلشمنٹ سے ٹوٹتے بنتے رہتے ہیں اور ان دنوں یہ تعلقات ایک بار پھر خوش گواریت کی بلندیوں پر ہیں۔ اسی دوران جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے زمانوں کے لیے پروجیکٹ بلاول پر دستخط کرکے جا چکے ہیں۔ عمران خان بھی ایک ایسے ہی پروجیکٹ کے طور پر لانچ ہوئے مگر وہ ماضی کے پروجیکٹس سے اس لحاظ سے مختلف تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں آنے سے پہلے ہی شہرت اور دولت کی بلندیوں پر رہ چکے تھے۔ یہ پروجیکٹ ماضی کے تمام منصوبوں سے خاصا مختلف ثابت ہوا اور پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کو اپنی جان کے لالے پڑگئے ہیں۔ یہاں پاکستان کی گھاک ہیئت مقتدرہ اندازے کی غلطی کا شکار ہو گئی۔ پاکستان کی تاریخ کے آئینے میں پی ٹی آئی کا یہ نعرہ اور دعویٰ ہی غلط تھا کہ ’’عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے‘‘۔ یہ نعرہ تو اسی وقت اپنی معنویت کھو چکا تھا جب گجرات کے قریب عمران خان کے جسم میں چار گولیاں اُتار دی گئی تھیں اور گولیاں چلانے والے نے اپنے طور پر ان کا کام تمام کردیا تھا اور ریکارڈ ہونے والی ویڈیو کے وقت بھی اسے یہی اندازہ تھا کہ وہ اپنا ہدف حاصل کرچکا ہے۔ اس حملے سے کئی دن پہلے
سے عمران خان کے سیاسی حریفوں نے ذو معنی انداز میں کہنا شروع کیا تھا کہ عمران خان تمہارا وقت ختم ہے۔ اس حملے سے دو دن پہلے میڈیا میں یہ خبریں آنے لگی تھیں کہ گجرات میں عمران خان کے لانگ مارچ کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔ چند دن بعد یہ صرف ’’کچھ‘‘ ہی نہیں بلکہ بہت کچھ ثابت ہوا۔
عمران خان اگر ریڈ لائن تھا تو یہ لائن اسی وقت کراس ہو گئی تھی اس کے بعد عمران خان کی گرفتاری تو کوئی مشکل معاملہ ہی نہیں تھا۔ قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان کے حامی جب ان کی گرفتاری کو ریڈ لائن قرار دے کر ریاست کو دھمکاتے تھے تو یہ بہت مضحکہ خیز سی صورت حال ہوتی تھی۔ آخر کار موقع پا کر ریاست نے یہ ریڈ لائن توڑدی اور عمران خان ایک یونیورسٹی قائم کرنے کے اسیکنڈل میں گرفتار ہوگئے۔ یہ یونیورسٹی تو ایک بہانہ تھا اگر کہانی میں یہ موڑ نہ آتا تو کسی اور بہانے سے انہیں گرفتار کر لیا جاتا۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہوا کہ وہ دو ریڈ لائنز عبور کر بیٹھے ان میں اندورنی کھیل کی تو دوسری بڑے کھیل یعنی عالمی سرخ لکیر تھی۔ ریڈ لائنز کو عبور کر بیٹھے جسے عبور کرنے کا پاکستان میں کوئی ریکارڈ ہے نہ رواج۔ جسے عبور کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو وقت کے مقبول لیڈر بھی اس وادی ٔ پرخطر میں قدم رکھنے کے بجائے اپنا بوریا بستر اُٹھائے بیرونی دنیا کے عافیت کدوں کا رخ کرتے ہیں۔ عمران خان اشرافیہ کے حامل پاکستان میں سیاست اور اقتدار کا کلچر تبدیلی کرنے کی کوشش کی اور ریاست کے وسائل اور مفاد کو عام آدمی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ ماضی کے رنگ ڈھنگ تو یہ بتاتے ہیں کہ یہ ملک صرف بالادست طبقے کے لیے قائم ہوا ہے اور اس کی ساری مراعات ساری سہولتیں صرف اسی بالادست مخلوق کے لیے وقف ہیں۔ یہ طبقہ ذہنی اور عملی طور پر مغرب کا اسیر ہے۔
دوسری ریڈ لائن عالمی تھی۔ پاکستان کے گرد وپیش میں بھارت عالمی مدار سے باہر نکلے تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ برسوں سرد جنگ میں سوویت یونین کا اتحادی رہا ہے۔ افغانستان بھی طالبان کے ہاتھوں میں جا کر اس مدار سے باہر نکل جائے تو بھی گوارا ہے مگر پاکستان سے عالمی طاقتوں کے مدار اور حصار سے نکلنے کی لہریں مرتعش ہوتی دکھائی دیں یہ قطعی گوار انہیں۔ یہ ایٹم بم کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے بھی پرانی کہانی ہے۔ جب کہوٹا کے بجائے پاکستان ابھی تک اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں کانٹے میں پھنسا تھا اس وقت بھی ملک پاکستان کا اس مدار سے نکلنا ایک ڈراونا خواب تھا۔ نجانے اس عمل میں ایسا کیا خوف پنہاں ہے کہ عالمی طاقتیں اس کے لیے اپنے اصول اور میعار تک تج دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ عمران خان کے محاروں اور طرز حکومت اور لب ولہجے میں ساتویں اور آٹھویں دہائی کے مشرق وسطیٰ اور افریقی اور لاطینی امریکا کے ملکوں کے حکمرانوں کی جھلک نظر آنے لگے تو خطرے کی گھنٹی بجنا تو لازمی ہے۔ ’’ہرگز نہیں‘‘ کہتے ہوئے انہوں نے عالمی قوتوں کے مدار سے نکلنے کا خطرہ اور خوف اپنے ساتھ وابستہ کر دیا تھا۔ یہاں سے اندازے کی ایک ایسی غلطی ہوگئی کہ جس کا خمیازہ آج ملک بھگت رہا ہے۔ بظاہر تو ایسے اندازوں کی غلطی کا احتمال نہیں ہوتا مگر منصوبہ سازوں نے بدلے ہوئے وقت، بدلے ہوئے نوجوان اور سامنے والے شخص کی نفسیات کا درست اندازہ نہیں لگایا۔ جس سے حالات کی ڈور اُلجھتی چلی گئی۔ عمران خان نے فیصلوں کا اختیار مانگتے ہوئے خود کو مشکلات کے بھنور میں دھکیل دیا۔ یہ طاقت کے مراکز کی حدود میں مداخلت کی ریڈ لائن ہے۔ اس جادونگری میں قدم رکھنے کی شوق میں کئی کردار تاریخ کی بھولی بسری یاد بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے خطرناک شوق فرمانے والوں کی کہانیوں کے عنوان مختلف ہیں مگر ان کا انجام ایک ہے۔ طاقتور سے طاقت چھیننے یا شراکت چاہنے کی خواہش دنیا میں ہر جگہ خطرات سے بھرپور رہی ہے مگر پاکستان میں تو یہ سراسر موت کے کنویں میں موٹر سائیکل کے کرتب جیسی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں طاقت کی ریڈ لائن عبور کرنے والے بھی اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟ کوئی احمق ہی ہوگا جسے اس قدر خطرناک کھیل میں صرف اپنی جیت کا یقین ہو۔ عمران خان بھی بقائمی ہوش وحواس اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ایک صفحے سے چلتے چلتے وہ اب جس مقام پر پہنچے ہیں اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ریاست نے عوام کے اس یقین کو شک میں بدلنے کے لیے چند برس میں سیکڑوں بیانیے میدان میں متعارف کرائے اور میڈیا کے ذریعے انہیں مقبول بنانے کی کوشش بھی کی مگر ہر بیانیہ شام سے پہلے کسی تندور پر رکھے اخبار کی طرح روٹیاں لپیٹنے کے کام آرہا تھا۔ پاکستان کے عوام نے اس یقین اور اعتماد کا تعلق بہت کم سیاست دانوں سے رکھا ہے۔ اسی یقین اور اعتماد نے عوام میں ان کی مقبولیت کو بلندیوں تک پہنچادیا۔ یہ مقبولیت ان کی مشکل بن گئی کیونکہ اسی مقبولیت سے منہ موڑنے اور نظریں چرانے کے لیے حکومت نے انتخابات سے دامن چھڑانا شروع کیا اور اس کے لیے آئین کو طاقِ نسیاں میں رکھنے پر آمادہ نظر آنے لگی۔ آئین کو کاغذ کا پلندہ بنانے کی اس سوچ سے سیاسی بحران مزید سنگین اور گہرا ہوتا چلا گیا۔