عمران خان کی گرفتاری و رہائی، یہ تو ہونا ہی تھا! (1)

808

تحریک انصاف کے چیئرمین اور ملک کے مقبول ترین سیاستدان عمران خان گرفتار بھی ہوئے اور عدالتوں سے رہا بھی کردیے گئے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ قضا تو ان کے سر پہ بہت دنوں سے منڈلا رہی تھی لیکن کچھ تو ان کی مزاحمت اور کچھ ان کے مخالفین کی کم ہمتی کی وجہ سے یہ گرفتاری جلد ممکن نہ ہوسکی اور یہ کام اس وقت ہوا جب خان صاحب نے ایک نیا محاذ کھول کر اپنے مخالفین کو خود تک رسائی کا آسان راستہ دے دیا۔ یہ گرفتاری پُرامن انداز میں شائستگی کے ساتھ بھی ہوسکتی تھی۔ خود عمران خان کو بھی اندازہ تھا کہ وہ اپنی گرفتاری کو زیادہ عرصہ نہیں ٹال سکتے۔ ان کے خلاف ایک سو سے زیادہ مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ ان میں بغاوت، غداری اور دہشت گردی جیسے سنگین الزامات پر مشتمل مقدمات بھی شامل ہیں جن میں ضمانت کرانے کے لیے وہ مسلسل عدالتوں کے چکر لگارہے ہیں، عدالتیں انہیں ریلیف دے رہی ہیں لیکن آخر کب تک؟ وہ ایک مقدمے میں رہا ہوں گے تو انہیں دوسرے مقدمے میں دھر لیا جائے گا۔ کیوں کہ ہئیت مقتدرہ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ انہیں اب چھوڑنا نہیں ہے۔ آبیل مجھے مار کی روایت پر عمل کرتے ہوئے یہ موقع خود عمران خان نے انہیں فراہم کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند روز پہلے جب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے لاہور سے روانہ ہوئے تو انہیں پورا یقین تھا کہ وہ گرفتار کرلیے جائیں گے۔ چناں چہ انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وارنٹ گرفتاری دکھائیں میں گرفتاری دینے کو تیار ہوں اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک اور ویڈیو پیغام ریکارڈ کرایا اور ہدایت کی کہ یہ پیغام ان کی گرفتاری کے بعد جاری کیا جائے۔ چناں چہ ان کا یہ ویڈیو پیغام ان کی گرفتاری کے بعد جاری کیا گیا جس میں وہ عوام سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ گھروں سے نکل آئیں اور حقیقی آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ بات تو طے تھی کہ خان صاحب کی گرفتاری پر ردعمل آئے گا اور تحریک انصاف کے کارکن اس پر شدید احتجاج کریں گے لیکن کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ یہ احتجاج، توڑ پھوڑ، تخریب کاری اور دہشت گردی کی سنگین صورت اختیار کرے گا اور بڑے پیمانے پر قومی املاک کی تباہی کا باعث بنے گا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ خان صاحب کو جس پُرتشدد انداز میں گرفتار کیا گیا اور رینجرز اہلکار جس طرح احاطہ عدالت سے انہیں گردن سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے گئے اس پر تحریک انصاف کے کارکنوں کا مشتعل ہونا ایک یقینی امر تھا۔ خان صاحب بہرکیف ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور سابق وزیراعظم ہیں، ان کے ساتھ یہ توہین آمیز سلوک بلاشبہ سیاسی اخلاقیات کے منافی تھا لیکن انہیں اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جو سلوک کرتے رہے ہیں خود انہیں بھی ایسے ہی سلوک سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ اس لیے انہیں حوصلے صورت حال کا سامنا کرنا چاہیے، انہیں پی ٹی آئی کارکنوں کو بھی یہ پیشگی ہدایت جاری کرنا چاہیے تھی کہ وہ ان کی گرفتاری پر احتجاج ضرور کریں لیکن قومی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں کہ یہ املاک کسی کی ذاتی ملکیت نہیں پوری قوم کی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر خان صاحب کارکنوں کو سختی سے یہ ہدایات جاری کرتے اور پیچھے جو اجتماعی قیادت انہوں نے چھوڑی تھی اسے بھی واضح انداز میں یہ گائیڈ لائن فراہم کرتے تو قومی سطح پر وہ نقصان نہ ہوتا جو ہوا۔ خان صاحب سے زیادہ سمجھدار اور قوم کا وفادار تو وہ کورکمانڈر نکلا جس نے اپنے مکان پر حملے اور بدترین دہشت گردی کے باوجود بلوائیوں کے خلاف فوج بلانے سے انکار کردیا کہ اس سے قوم کا جانی نقصان ہوگا۔ حالاں کہ فوج اس کی ڈسپوزل پر تھی۔ شنید ہے کہ اس ’’غفلت‘‘ پر اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہے۔ خان صاحب کی سنگین غلطی یہ ہے کہ وہ انتخابات کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کے بجائے اسے مزید بگاڑنے پر تُلے رہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو ٹارگٹ کرنے اور پی ڈی ایم کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے بجائے فوجی مقتدرہ کو نشانے پر رکھ لیا۔ اس طرح خان صاحب کے سیاسی حریف ہر قسم کے دبائو سے آزاد ہو کر فوجی قیادت کے پیچھے چھپ گئے اور انتخابات سے پیچھا چھڑانے کا موقع ہاتھ آگیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کسی صورت بھی انتخابات نہیں چاہتی وہ اپنے اقتدار کو زیادہ سے زیادہ طول دینا چاہتی ہے لیکن اگر حالات معمول پر رہتے تو اسے اگست، ستمبر میں نہ سہی اکتوبر میں لازماً انتخابات کرانے پڑتے کہ یہی آئین کا تقاضا تھا۔ لیکن اب خان صاحب نے اپنی اشتعال انگیز حماقت سے جو حالات پیدا کردیے ہیں اس میں اکتوبر کیا، اکتوبر کے بعد بھی غیر معینہ عرصے تک انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔ اور یہی پی ڈی ایم کی خواہش تھی۔
ملک میں مارشل لا یا ایمرجنسی لگانے کی باتیں ہورہی ہیں، مارشل لا کے بارے میں تو فوجی ترجمان نے وضاحت کردی ہے کہ مارشل لا نہیں لگے گا۔ مارشل لا اس لیے بھی نہیں لگے گا کہ یہ آئوٹ آف فیشن ہوگیا ہے اور عالمی ادارے خاص طور پر آئی ایم ایف اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سیاسی افراتفری بڑھتی رہے تا کہ اس کی آڑ میں اسے اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں آسانی رہے۔ آئی ایم ایف کا ٹارگٹ کیا ہے؟۔ ہم اس پر کئی مرتبہ بات کرچکے ہیں۔ یہ ٹارگٹ ہے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سلب کرنا اور اس کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنا، آئی ایم ایف اپنے اس ٹارگٹ کی طرف آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے اور اسے امریکا کی مکمل تائید حاصل ہے۔ دراصل یہ ٹارگٹ امریکا ہی کا ہے اور وہ آئی ایم ایف کے کندھے پر بندوق رکھ کر یہ ٹارگٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تمام کاوشوں کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوسکا اور ڈالر مسلسل اُڑان بھر رہا ہے۔