چین نہیں پاکستان مخالف اتحاد

995

مشرقی ایشیا کو ترجیح دینے کی امریکی خارجہ پالیسی چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس کے تحت نئے کثیرالجہتی اتحادوں کے ساتھ باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کے منصوبے تیار کیے گئے تھے۔ ہم نے 2020ء میں لکھا تھا کہ ’’بھارت اور امریکا کے درمیان معاہدے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے خطے میں اسٹرٹیجک توازن متاثر ہوگا، جو پاکستان کے حق میں نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ نئی دہلی اور واشنگٹن میں تعلقات گزشتہ دو عشروں سے بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اس دوران دفاع سمیت مختلف شعبوں میں کئی معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ لیکن موجودہ معاہدہ، جو بنیادی طور پر چین مخالف خیال کیا جارہا ہے، پاکستان کو بھی متاثر کر سکتا ہے‘‘۔ اب امریکا بھارت کے ساتھ مل کر سعودی عرب۔ امارات کو ملا کر پاکستان اور چین کے خلاف ایک نئی صف بندی کی جارہی ہے جس میں اسرائیل بھی کہیں نہ کہیں چھپا نظر آرہاہے۔ امریکا، انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیروں کی سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کے ساتھ ہونے والی ملاقات انتہائی اہم ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ خلیجی ممالک میں امریکا اپنی حکمت عملی میں انڈیا پر خصوصی توجہ دے رہا ہے اس کے ساتھ ہی امریکا کی یہ بھی کوشش ہے وہ چین کے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے قدموں میں کسی نہ کسی طرح بیڑیاں ڈالنے میں کامیاب ہو جائے جس میں وہ اب تک مکمل طور سے ناکا م رہا ہے۔
امریکی جریدے فارن پالیسی نے لکھا ہے کہ تینوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی طرف سے سعودی عرب میں جو تجویز پیش کی گئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا اور متحدہ عرب امارات بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ عرب دنیا میں انڈیا کے نئے امکانات کی بات کی جا رہی ہے۔ اس اجلاس کا مقصد انڈو پیسیفک کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ ایشیا پیسیفک میں چین کے اثر رسوخ کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ’بائیڈن انتظامیہ کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو صرف رابطے کے منصوبے کے ذریعے روکا جا سکتا ہے‘۔
مغربی ایشیا میں ایک ہلچل کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں عرب ممالک باہمی دشمنی بھلا کر ایک بار پھر اکٹھے ہو رہے ہیں۔ شام میں 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد یہ اس طرح کا پہلا اعلیٰ سطح کا اجلاس ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ روس ترکی اور شام کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی امریکا اور یو اے ای کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزروں کے ساتھ سعودی عرب میں ملاقات اہم ہے۔ خلیجی ممالک میں انڈیا اور امریکا کی گرم جوشی انڈیا کی روایتی پالیسی سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت خلیجی ممالک میں امریکا کی مخالفت کر تا رہا ہے۔ لیکن 2021 میں امریکا کی قیادت میں I2U2 میں شامل ہو کر انڈیا نے خود پر مسلط نظریاتی حصار کو توڑ دیا۔ I2U2 میں اسرائیل، بھارت، متحدہ عرب امارات اور امریکا شامل ہیں۔ بھارت کے لیے ’مشرق وسطیٰ میں امریکا سے ہاتھ ملانا ہی واحد شجر ممنوع نہیں تھا جسے مودی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی میں توڑا ہے، بھارت نے اس خیال کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ دوستی کا اظہار کھل کر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دو اہم عرب ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات کو بھی ٹھوس اسٹرٹیجک شراکت داری میں تبدیل کر دیا ہے۔ کچھ سال پہلے تک خلیج کے سنی ممالک میں امریکا اور اسرائیل کے ساتھ انڈیا کی وابستگی کو بھی ایک خیالی تصور کے طور پر مسترد کر دیا جاتا تھا۔ لیکن اب بھارت اس علاقے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ کھل کر سامنے آ رہا ہے‘۔
بی بی سی کے مطابق خلیج میں امریکا واحد مغربی طاقت نہیں ہے جس کے ساتھ بھارت قریبی روابط استوار کیے ہوئے ہے۔ فرانس بھی خلیج میں بھارت کا ایک اہم شراکت دار بن کر ابھرا ہے۔ بھارت اس وقت متحدہ عرب امارات اور فرانس کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات کر رہا ہے۔ ’جب سوویت یونین نے 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا تو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان مل کر اس حملے کو چیلنج کر رہے تھے۔ لیکن بھارت اس لڑائی میں سوویت یونین کے خلاف نہیں تھا؟‘
سرد جنگ کے دوران بھارت نے کسی کیمپ میں نہ رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور عدم وابستگی تحریک کو آگے بڑھایا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب کھلے عام امریکی کیمپ میں تھے۔ تاہم بعد میں بھارت کی عدم وابستگی کا جھکاؤ سوویت یونین کی طرف ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ 1955 میں بغداد معاہدہ اس علاقے میں کمیونسٹ خطرات سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا۔ پاکستان بھی برطانیہ، عراق، ایران اور ترکی کے ساتھ بغداد معاہدے کا ایک اہم حصہ تھا۔ بغداد معاہدہ تب دفاعی تنظیم کہلاتا تھا۔ اس میں پانچوں ممالک نے اپنے مشترکہ سیاسی، عسکری اور اقتصادی مقاصد کے حصول پر بات کی تھی۔ یہ ناٹو کے خطوط پر استوار تھا۔ عراق 1959 میں بغداد معاہدے سے باہر ہو گیا تھا۔ عراق کے باہر ہونے کے بعد اس کا نام بدل کر سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن رکھ دیا گیا۔ بغداد معاہدہ سوویت یونین کے خلاف ایک اتحاد کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ دوسری طرف عدم وابستگی کی بات کرتے ہوئے بھی بھارت سوویت یونین کے قریب نظر آتا تھا۔
گزشتہ ایک دہائی سعودی عرب پاکستان کی مالی امداد کیوں کرتا ہے اور کیا پاکستان سعودی عرب کے لیے ایک طاقت ہے یا بوجھ؟ اس کا جواب اس بھی مل سکتا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے لیے غیر متعلقہ، غیر اہم ملک بنتا جارہا ہے۔ مئی 1998 میں جب پاکستان یہ فیصلہ کر رہا تھا کہ آیا انڈیا کے پانچ جوہری تجربات کا جواب دیا جائے یا نہیں تو عین اس وقت سعودی عرب نے پاکستان سے 50,000 بیرل تیل یومیہ مفت دینے کا وعدہ کیا۔ اس سے پاکستان کو ایٹمی تجربے کے بعد مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے میں بہت مدد ملی۔ اگر پاکستان مشرق وسطیٰ میں مغرب کے حامی ممالک کے اتحاد کے درمیان اب بھی قریب رہتا تو بھارت شاید ہی مشرقِ وسطیٰ میں مغرب کے لیے اتنا اہم بنتا۔ خلیج کی جغرافیائی سیاست بدل رہی ہے، پاکستان اب غیر متعلق یا غیر اہم ہو گیا ہے۔ پاکستان کو 1950 کی دہائی میں ایک اعتدال پسند مسلم ملک کے طور پر دیکھا جاتا تھا، لیکن اب اس کی شناخت سخت گیر اسلامی انتہا پسندی کے ہمدرد کے طور پر کی جاتی ہے۔ پاکستان کی یہ منفی تصویر بھارت نے بہت خوبصورتی سے پنٹ کر رکھی سویت یونین کے خاتمے کے بعد ہی ’بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست میں پاکستان اب مغرب کے لیے غیر متعلق ہو چکا ہے اور وہ چین کے ساتھ کھڑا ہے بھی اور نہیں بھی کی کیفیت سے دو چار ہے۔ دوسری جانب مغرب اور چین کے تعلقات مسلسل کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں‘۔ مودی حکومت خلیج کے بدلتے ہوئے توازن کو سمجھ چکی ہے اور اسی کے مطابق بامعنی قدم اٹھائے ہیں۔
اس پوری صورت حال کی وجہ سے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد خلیج کے اسلامی ممالک کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ حالات بدل چکے ہیں۔ یہ وہی سعودی عرب ہے جو کشمیر پر پاکستان کے ساتھ رہا کرتا تھا لیکن ان وہ بھارت کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہن 9 مئی کو نئی دہلی آئے تھے۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی طرف سے منعقدہ انڈیا۔اسرائیل بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے ایلی کوہن نے کہا، ’ہمارا وژن یہ ہے کہ اسرائیل، خلیج کے عرب ممالک اور بھارت مشرق سے مغرب کی طرف گیٹ وے بنیں۔ ٹرین کے ذریعے اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ اور پھر یہاں سے کہا جا رہا ہے کہ انڈیا مشرق وسطیٰ کے لیے معاشی ضرورت بننا چاہتا ہے اور اسرائیل کو انڈیا کے اس مقصد میں اہم اتحادی سمجھا جا رہا ہے۔