سسرال کے ڈراوے تو پاکستانی بچپن سے سنتے ہوئے جوان ہوتے ہیں۔ ہر گھر میں یہ طعنے زبان زدِ عام ہوتے ہیں۔ بیٹا کہیں سے دیر سے گھر واپس آیا۔
’’آگئے واپس؟ خیر سے سسرال کا چکر لگا آئے، سسرال سے واپسی کا جی نہیں چاہ رہا ہوگا؟‘‘
اگر بیٹی سے ہانڈی جل گئی تو۔ ’’سسرال جا کر یہ سب کیا ناں تو ساس چوٹی سے پکڑ کر باہر نکال دے گی‘‘۔
اس جیسی مثالوں سے ہماری سسرالیاتی تاریخ بھری پڑی ہے مگر جب سے سسرالیات میں نیازیات کا تڑکا لگا ہے بیگمات ’’پیرنی‘‘ کے درجے پر فائز ہو کر دم درود اور خاوند کی پروموشن کے حوالے سے مشہور ہورہی ہیں دونوں اطراف کے دوستوں میں ازواج کے تبادلے نہ تو میڈیا کے لیے پریشان کن ہیں اور نہ ہی اشرافیہ کی شرافت پر چار حرف کی سنگ باری کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔ اور تو اور موجودہ نظام انصاف کے تانے بانے بھی اسی موضوع سے ملنے لگ گئے ہیں اسی لیے عدالیات کے فیصلوں پر ساسیات کے احکامات جاری ہوتے ہیں اس حوالے سے جماعت اسلامی والوں کے تحفظات ہدایت الرحمان کے حوالے سے نظر آئے تو معلوم ہوا کہ ان کے تعلقات میں ایسی ساسیات شامل نہیں تھیں جو ان کی رہائی کے احکامات جاری کراسکتیں۔
انصاف یہاں سسرال کی چوکھٹ پر ساسوں کے حکمنامے سے رلتا دیکھ کر عدالیات کے تقدس پر گہری ضربات لگیں ہیں۔ ان ضربات کے گھاؤ بھرنے میں تو شاید زمانہ لگے لیکن ان سے بچنے کے لیے عوام کی جانب سے۔ تجویز ہے کہ پاکستان کی جامعات میں شعبہ سسرالیات کا اضافہ کر دیا جائے تاکہ وہ افراد جو اپنے بچوں کو سسرالیات سے حفاظت کے ٹیکے نہیں لگوا پائے وہ کم از کم ان کے ذوق جمالیات میں اس شعبہ کے حوالے سے اضافہ کر سکیں اور ان کی ٹریننگ کی جا سکے کہ جب صورتحال نیازیات کی ذاتیات پر آ جائے تو وطن کی باقیات کو ترجیح دی جانی چاہیے نہ کہ ساسیات کے احکامات پر،؟۔
’’سوموٹو ایکشن‘‘ لینے کا دورانیہ بھی پڑھایا جائے کہ حکم اگر عورت کی ساس کا ہے تو کس طرح تاخیری حربے آزما کر کیس ختم کر دینا ہے اور اگر مرد کی ساس کا ہے تو ایکشن لینے کی جلدی کی جائے تاکہ گھر جا کر جج صاحب کو تازہ پھلکا کھانا نصیب ہو۔
بیجنگ کانفرنس میں خواتین جن حقوق کی بات کرکے دہائیوں سے لڑتی آ رہی ہیں ان تمام کو خوشخبری سنادینی چاہیے کہ وہ سب اپنے ’’ساس‘‘ بننے کے دورانیے کا انتظار کر لیں پھر ان کے اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا غیر شادی شدہ خواتین پریشان نہ ہوں وہ کسی نہ کسی رشتے سے بھی شعبۂ سسرالیات کے دائرہ کار میں آتی ہیں ( مثلاً پھوپھی ساس، خالہ ساس وغیرہ وغیرہ) تو ان کے حکم کی تعمیل جدید قوانین عدالیات کے تحت ایک گھنٹے میں کی جائے گی۔
مطالعہ ٔ شعبۂ سسرالیات اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ پتا لگایا جا سکے کہ ان کے دائرہ کار میں کس طرح کی ساسیات، سالہ جات و سالیات آتی ہیں کیونکہ سسرالیات محض ساسیات کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس شعبے میں سسرات، سالہ جات و سالیات ہی نہیں بلکہ ان کے بچے جمہورے بھی شامل ہیں۔
ان پر طلبہ وطالبات کو سیر حاصل مطالعات، تحقیق وجستجو کے بعد ملکی طبقات کے مطالعہ کا مشاہدہ ضرور کروادیا جائے اور ہر روز اس مشاہدے کا اعادہ کرنے کا ہوم ورک مکمل کرنے کی تلقین کی جائے تاکہ غلطی سے بھی متوسط اور غریب طبقے کے سسرال اپنے آپ کو ان کے مماثل سمجھنے کی جرأت نہ کریں وگرنہ امیدیں ٹوٹیں گی تو نتائج کی ذمے دار اشرافیات ہر گز نہیں ہوگی کیونکہ یہ سب گوگی، پنکی، کیٹی، فیٹی ’’اعلیٰ ترین‘‘ ہیں۔ بشیراں، نذیراں، فقیراں، رشیدہ حمیدہ اپنے دائرہ کار سے باہر نکلنے کی غلطی کرنے سے پہلے قندیل بلوچ کا حال دیکھ لیں۔