پاکستانی پسماندہ مائیں اور عالمی یوم ماں

737

دنیا کی کوئی تخلیق ’’ماں‘‘ کا نعم البدل نہیں ہوسکتی، ماں کرہ ارض پر وہ واحد ہستی ہے جیسے ربّ کریم نے ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے جس کی بدولت وہ آخری سانس تک اپنے عظیم کردار کو بخوبی نبھاتی چلی جاتی ہے۔ ایک عورت کا روپ بحیثیت بیوی، بیٹی اور بہن کی صورت میں تو اہمیت کا حامل ہے ہی لیکن ماں کے درجے پر فائز ہونے کے بعد وہ عظمت کی ان بلندیوں تک رسائی حاصل کرلیتی ہے کہ جنت اس کے قدموں تلے آپہنچتی ہے۔ ہر سال، مئی کے مہینے میں آنے والے دوسرے اتوار کو پاکستان بھر میں یوم ماں زور وشور سے منایا جاتا ہے، دنیا کے بیش تر ممالک میں اس دن کی مناسبت سے بہت سے پروگرام، سیمینارز، کانفرنسیں اور دیگر نوعیت کی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں عموماً ایک جانب تو ماؤں کے عظیم کردار کو سراہا جاتا ہے تو دوسری طرف انہیں درپیش مسائل، مشکلات اور تحفظات کو بھی زیربحث لایا جاتا ہے اور ایسے عملی اقدامات اور عوامل کی جانب نشاندہی کی جاتی ہے جن کی بدولت کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوا جاسکے۔
ہمارے یہاں یوم ماں منا تو لیا جاتا ہے لیکن (قومی سطح پر) اسے منانے کی جو حقیقی خوشی حاصل ہونی چاہیے اْس سے ہم پوری طرح مستفید نہیں ہو پاتے، میرا مطلب اْن ماؤں سے ہے جو پسماندگی، عدم توجہی اور معاشرتی ناانصافیوں کا شکار ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں قدرت کی اس انمول تخلیق کو جہاں دیگر مسائل اور تکالیف کا سامنا ہے، وہیں ماؤں کی صحت عرصہ دراز سے مسائل کا شکار رہی ہے، بالخصوص دیہی اور پسماندہ علاقوں میں تو صورتحال بدترین شکل اختیار کرچکی ہے، ڈھائی کروڑ سے زائد خواتین مختلف اقسام کی معذوری، وبائی امراض اور دیگر نوعیت کی چھوٹی، بڑی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ہر سال تقریباً 515000 عورتیں دوران حمل اور زچگی سے متعلق پیچیدگیوں سے نبردآزما ہوکر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں میٹرنل شرح اموات 276/100,000 ہے، جو ساؤتھ ایشین ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔
کچھ ماہ قبل، سندھ کے مختلف خصوصاً پسماندہ علاقوں میں جانے کا موقع ملا، اگرچہ جانے کا مقصد تو کچھ آفیشل امور کی انجام دہی تھا، مگر وہاں پہنچ کر ہمہ وقت توجہ کسی اور طرف ہی رہی۔ جوں جوں لوگوں سے ملتا رہا، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، افسوس اور مایوسی کا احساس غالب رہا، وجہ وہاں موجود لوگوں کے چہروں پر دکھ، درد اور اذیت کی وہ پرچھائیاں تھیں جو دیکھنے والے کو صاف نظر آرہی تھیں۔ کون سے ایسے مسائل اور تکالیف تھیں، جن کا سامنا وہاں موجود لوگ نہیں کررہے تھے، تعلیم، روزگار، خوراک، سڑکیں، ٹرانسپورٹ۔ اذیتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں، غرضیکہ بقول شاعر:
زندگی گزری بھی تو کچھ اس طرح
مرنے کی خواہش رہی ساتھ ساتھ
اس افسوسناک صورتحال میں جو بات سب سے زیادہ پریشان کْن تھی وہ صحت سے متعلق امور کی تھی، یوں تو تمام ہی غربت زدہ علاقوں میں زندگی آخری سانس لیتی نظرآرہی تھی، لیکن تھرپارکر اور عمر کوٹ جیسے علاقوں میں تو لفظ ’’موت‘‘ شاید رچ بس سا گیا تھا۔ بیش تر خواتین مختلف نوعیت کی چھوٹی‘ بڑی اور موذی بیماریوں میں مبتلا تھیں۔ بچے، بالخصوص نوزائیدہ بچے، اپنے ماں، باپ کی بے بسی اور بے کسی کی قیمت چکاتے نظرآتے تھے۔ نہ پانی تھا، نہ پیٹ بھر روٹی البتہ کچھ برائے نام مسکن اپنے مکینوں کو کسی حدتک دھوپ کی حدت سے بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ماں کی نظروں کے سامنے بچے، اور بچے کے آگے رکھا اپنی ماں کا ’’بے جان وجود‘‘ کسی آزمائش سے کم نہ تھا۔ احساسات، برداشت پر غالب آنے لگے تو کراچی واپس آجانے ہی میں عافیت سمجھی۔
پھر اْن دنوں یوم ماں آیا اور چلا بھی گیا۔ اس ضمن میں متعدد محافل کا انعقاد ہوا ٹیلی وژن پر بہت سے پروگرام مع اشتہارات نشر ہوئے، بہت سی تحریریں اخبارات کی زینت بڑھاتی نظرآئیں، لیکن عملی طور پر کچھ ایسا نہ دیکھا گیا جو غربت اور پسماندگی کا شکار ماؤں کے زخموں پر مرہم کا کام کرسکتا یا کم از کم اداس چہروں پر چند لمحوں۔ محض چند لمحوں کے لیے مسکراہٹ بکھیر دیتا، ’ہاں‘ البتہ انہی دنوں اخبارات میں شایع ہونے والی کچھ خبریں پڑھ کر تقویت ضرور ملی، خبریں سندھ کی جیلوں میں قیدیوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے تھیں۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ جیل میں قیدیوں کی زندگی مسائل سے بھرپور ہوتی ہے اور یقینا ایسا ہوتا بھی ہے، لیکن موجودہ وقت میں صورتحال میں کسی حد تک تبدیلی بھی دیکھنے میں آئی ہے، سندھ کی جیلوں میں قیدیوں کی فلاح وبہبہود کے حوالے سے نمایاں کام انجام دیے جارہے ہیں جن کا بھرپور فائدہ اْنہیں پہنچ رہا ہے۔ قیدیوں میں شامل ماؤں کو جیل میں زندگی کے دن بہتر طور پر گزارنے کے لیے مختلف حوالوں سے فیسیلٹیٹ کیا جا رہا ہے۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں کمیٹی فاردی ویلفیئر آف پرزنرز (سی ڈبلیو پی)، قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف پروگراموں پر کام کر رہی ہے، جن میں خواتین کو ووکیشنل ٹریننگ کا دیا جانا نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح سے بچوں کے لیے ’’لرننگ سینٹرز‘‘ کا قیام اْن کے بہتر مستقبل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ قیدی بچوں کے لیے فٹبال میچز کا انعقاد ان کی ذہنی اور جسمانی نشونما کی تعمیر کر رہا ہے۔
قیدیوں کو لیگل ایڈ کی فراہمی قابلِ تعریف ہے، موجودہ دنوں میں بھارتی ماہی گیروں کی کراچی کی ملیر جیل سے رہائی میں کمیٹی کا نمایاں کردار ہے۔
اے کاش، ایسے تمام تر اقدامات، چاہے وہ حکومتی، نجی، کسی قومی یا بین الاقوامی این جی او (NGO) یا پھر کسی فرد واحد کی جانب سے کیوں نہ ہوں، اس طرح سے عمل میں لائے جائیں کہ میرے وطن کی تمام پریشان حال اور غربت زدہ ماؤں کو زندگی خوبصورت لگنے لگے، وہ اسے جینا چاہیں اور مرنے کی خواہش دم توڑ دے، اور پھر ہم قومی سطح پر یوم ماں مناتے ہوئے اچھے بھی لگیں گے۔