عمران خان کی گرفتاری کے خلاف عوامی احتجاج، جسے عوامی احتجاج کا نام دینا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ نہایت افسوس ناک واقعات ہوئے، مظاہرین نے شیخ رشید کی ایک پرانی نصیحت کہ جلادو گرا دو آگ لگا دو پر پورا پورا عمل کیا لاہور میں جناح ہائوس بھی جلا دیا گیا، لوٹ مار کی گئی، پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ جو ہوا اس سے بھی برا ہوا کہ لاڈلہ رہا کردیا گیا، ایک شخص بھی اٹھا تھا ماضی میں، تحریک لبیک اس کی آواز تھی، معذور تھا، وہیل چیئر پر تھا، مگر اس پر تشدد ہوا، کسی نے اس کی رہائی کے لیے، اس کی شنوائی کے لیے عدالت نہیں لگائی، بارہ مئی ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہے، اس روز کراچی میں اڑسٹھ لاشیں گرائی گئیں، منصوبہ یہ تھا کہ چیف جسٹس کو ائر پورٹ سے باہر نہیں آنے دینا اور جیلوں سے مجرم چھوڑ کر انہیں اسلحہ دیا گیا جنہوں نے کراچی میں قیامت ڈھا دی۔ کسی نے آج تک ان لاشوں کی شنوائی کے لیے عدالت نہیں لگائی، عدالت صرف لاڈلوں کے لیے لگتی ہے اسی لیے تو جسٹس وقار سیٹھ آج دنیا میں نہیں رہے، مشرف کو کسی نے پوچھا تک نہیں۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ طاقت کے استعمال سے معاملات بگڑتے ہیں، جس کا نقصان نہ صرف ملک کی سلامتی کو ہوتا ہے بلکہ اس سے سماجی ڈھانچا بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ مگر بارہ مئی کو کہا گیا یہ ہے میری طاقت، اس طاقت کے مظاہرے کے پیچھے عام آدمی پر کیا گزرتی ہے، اس کا کسی کو احساس نہیں ہے، بحران زدہ پاکستان میں عام آدمی پر کیا گزر رہی ہے؟ ہمیشہ مورخین، سیاسی کارکنان اور دانشوروں میں بحث رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سید مودودی کو بھی سزائے موت سنائی گئی تھی، مگر مجال ہے کہ جماعت اسلامی نے ایک تنکا بھی توڑا ہو، خود مولانا مودودیؒ نے کہا کہ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں، انہیں سزا دینے والے فوجی افسر بعد میں جنرل رحیم الدین کے نام سے معروف ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پی پی پی نے احتجاج کیا مگر اس کے کارکن شہداء کے مزاروں تک نہیں پہنچے، شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ پر ساٹھ کی دہائی سے سختیاں تھیں لیکن اس کے کارکن بھی شہداء کے مزاروں تک نہیں پہنچے، اب یہ سوال ہے کہ یہ مظاہرین کون تھے، کیا یہ واقعی سوال نہیں ہے کہ ہم جانیں کہ یہ کون لوگ تھے، اور رہائی کے لیے خاص انتظام کیوں کیا گیا؟ بہر حال یہ عقدہ کھل جائے گا کیونکہ ایک سوال نامہ دیا گیا ہے کہ بتایا جائے کہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی سے خفیہ خط و کتابت کیوں کی۔
گرفتاری پر رو دینا اور منت سماجت کرنا کہاں کی لیڈری ہے؟ اگر سیاست کرنی ہے تو پھر صبر اور حوصلے کے ساتھ صعوبتیں جھیلنا بھی سیکھو، کون سا لیڈر ہے جو جیل نہیں گیا، مگر کھلاڑی صاحب کا معاملہ دوسرا ہے آپ دوسروں کو چور چور اور کرپٹ کرپٹ کہتے خودکرپٹ ثابت ہونے جارہے ہیں۔ آپ کو کس نے کہا تھا کہ کرپشن کے پیسوں سے اپنی ذاتی القادر یونیورسٹی قائم کریں بزنس ٹائیکون ملک ریاض کو برطانیہ میں 190 ملین پائونڈز جن کی مالیت پاکستانی کرنسی میں تقریباً ساٹھ ارب روپے بنتی ہے جرمانہ ہوا یہ خطیر رقم حکومت ِ برطانیہ حکومت ِ پاکستان کے خزانے میں بھیج رہی تھی مگر آپ نے عدالت عظمیٰ کا کندھا استعمال کرتے ہوئے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کو بیچ میں ڈال کر تحصیل سوہاوہ میں 458 کنال اراضی زولفی بخاری کے نام منتقل کروائی، اسے ٹرسٹ کا متولی ظاہرکیا گیا بنی گالہ میں بیٹھ کر اپنی سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی بیگم بشریٰ بی بی اور خود کو ٹرسٹی ڈکلیئر کرتے ہوئے اس کی ملکیت حاصل کرلی۔ وہ ساری کہانیاں سچ ہیں یا جھوٹ، اس کا فیصلہ ہونے دیا جائے۔ شہزاد اکبر نے دو ارب کمائے یا زیادہ یا کم ، یہ بھی سامنے آنے دیا جائے، یہ تو شہزاد اکبر ہے جناب کے لاڈلے اخبار نویس جو اسلام آباد میں شیشے کا کاروبار کرتے رہے ہیں، دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں جھٹلا سکتی، اسلام آباد کے کسی افسر میں جرأت نہیں تھی کہ وہ ان لاڈلے اخبار نویسوں کے شیشہ گھروں کو بند کراتے، پاکستان کو برباد کردینے والی منصوبہ بندی میں استعمال ہونے والا بڑا مہرہ آج قانون کی گرفت میں آیا ہے تو ردِ عمل میں ہونے والی توڑ پھوڑ بھی اصلیت کو سمجھنے کے لیے بہت کچھ واضح کر گئی ہے، بس یہ سمجھ لو کہ تم واقعی ایک مہرے ہو، اس معاشرے میں بربادی پھیلانے کے لیے تمہارا انتخاب کیا گیا تھا۔