برصغیر پر قابض برطانوی استعمار کیخلاف آزادیٔ وطن کے لیے جتنی مزاحمتی تحریکیں برپا ہوئیں ان میں طوالت کے اعتبار سے سب سے بڑی تحریک وہ تھی جس کی قیادت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے کی تھی اس کا نام تحریک آزادی وطن یا تحریک استخلاص وطن تھا اس کی فکری بنیاد تو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی حیات مبارکہ میں رکھ دی تھی اور اس کے لیے خلافت الٰہیہ کو بنیاد قرار دیا تھا جس کا ذکر ولیوں نے اپنی گراں قدر تصنیف حجۃُ الالبالغہ اور تفہیمات میں کیا ہے اور عملی طور پر ہندوستان کے مسلمانوں کو مرہٹوں کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو بلایا تھا جس نے مرہٹوں کو پانی پت کے میدان میں ذلت آمیز شکست سے دوچارکرکے ان کی طاقت کو کچل کر رکھ دیا تھا۔ شاہ ولی اللہ کے دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد جب انگریز مکمل طور پر ہندوستان پر قابض ہوگیا اور ایسی باتیں زبان زد عام و خاص تھیں۔
1۔ ملک اللہ کا۔ 2۔ حکومت شاہ عالم کی۔ 3۔ حکم ایسٹ انڈیا بہادر کمپنی کا۔ یاد رہے کہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا لقب شاہ عالم تھا اور کہا جانے لگا از دلی تا پالم حکومت شاہ عالم ایسے حالات میں سید شاہ عبدالعزیز نے کمال دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا اور انگریز استعمار کیخلاف مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی، یہ زمانہ انیسوی صدی عیسوی کے آغاز کا تھا اسی فتوے اور ترغیب کو بنیاد بنا کر سیدین شہیدین نے جہاد کی تیاری کا آغاز کیا اور اپنی تحریک کی بنیاد تین اصولوں پر قائم کی۔ نمبر1 دعوت و تبلیغ و اصلاح رسوم۔ نمبر 2 تنظیم۔ نمبر 3۔ تحریک مزاحمت۔ پہلے اصول پر عمل کرتے ہوئے پورے ہندوستان میں تبلیغ کا جال بچھادیا اور تبلیغ کے لیے شاہ اسماعیل شہید نے دلیرانہ انداز خطابت اختیار کیا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد رقمطراز ہیں۔ دعوت و اصلاح امت کے جو بھید پرانی دہلی کے اور کوٹلہ کے مجروں میں دفن کردیے گئے تھے اب اس سلطان وقت و سکندر اعظم شاہ اسماعیل شہید کی بدولت شاہ جہاں آباد کے بازاروں اور جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اس کا ہنگامہ مچ گیا اور ہندوستان کے کناروں سے گزر کر نہ معلوم کہاں تک چرچے اور افسانے پھیل گئے جن باتوں کے کہنے کی بڑے بڑوں کو بند حجروں کے اندر بھی تاب نہ تھی وہ اب سربازار کی جارہی تھیں (تذکرہ) سید احمد شہید کی ترغیب پر شاہ اسماعیل شہید نے ایک کتاب نکاح بیوگان لکھی اور اس سے ہزاروں بیوہ عورت کے نکاح ہوگئے خود سید احمد شہید نے اپنے بڑے بھائی کی بیوہ سے نکاح کرکے اس کا آغاز کیا اس کے بعد سید احمد شہید نے پورے ہندوستان کے تمام اضلاع میں تنظیم سازی کی اس تحریک و تنظیم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی اس کی قیادت سرکردہ اور مقتدر علماء حق کے پاس تھی جن میں ہر ایک کے پیرو کاروں کی تعداد ہزاروں میں تھی انہوں نے جہاد کی روح اس طرح عوام کے دلوں میں پھونک دی تھی کہ مائیں اپنے بچوں کو لوری دیتے ہوئے شہادت کا جذبہ پروان چڑھاتی تھیں۔
آخر کار جنوری 1926 کو وقت کے عظیم علماء اور مخلصین کا ایک قافلہ رائے سے عازم سفر ہوا جس کا بنیادی مقصد انگریزی سامراج سے وطن کو آزاد کرانا تھا۔ سید احمد شہید کے ساتھ اس قافلے میں بہت بلند نسبتیں رکھنے والے شاہ اسماعیل شہید شریک تھے جو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے شاہ عبدالعزیز اور شاہ رفیع الدین کے بھتیجے اور شاہ عبدالغنی کے صاحبزادے تھے یہ قافلہ ہندوستان کے شہروں سے ہوتا ہوا پاکستان موجودہ صوبے کے پی کے میں پہنچا جس کا پرانا نام سرحد تھا اس زمانے میں سرحد اور پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی سکھوں نے برطانوی سامراج کے ایما پر مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کررکھی تھی عالمگیر بادشاہ کی تعمیر کردہ بادشاہی مسجد سکھوں کے گھوڑوں کا اصطبل تھی۔ اذان دینے نماز باجماعت کرنے اور دیگر شعائر اسلام پر پابندیاں تھیں اور لوگ اکثر و بیش تر سکھ مظالم کا شکار ہوتے مگر زبان کھولنے کی جرأت نہ کرتے مسلمان سردار و خواتین بھی سکھوں کے رحم و کرم پر تھے سید احمد شہید کا قافلہ مسلمانوں کے لیے مسیحا ثابت ہوا سرحدکے مختلف علاقوں میں سکھ فوج کے ساتھ مقابلے ہوئے جن میں جنگ نوشہرہ، معرکہ اکوڑہ، ابتدائی طور زیادہ مشہور ہیں۔ سید احمد شہید نے اپنی امامت کا اعلان کرتے ہوئے نوشہرہ کو اپنا پایۂ سلطنت قرار دیکر لوگوں سے بیعت جہاد و بیعت اطاعت لی۔ فروری1827 کو ہندوستان کے طول و عرض میں سید احمد شہیدکی امامت کا عام اعلان کردیا گیا اس کے بعد جنگ پنجتار اور ہشت نگر میں مجاہدین کو کامیابیاں حاصل ہوئیں اور ہزاروں سکھ پسپا ہوئے اور سیکڑوں واصل جہنم۔ حالانکہ ان کو ہر جنگ میں انگریزوں کی طرف افرادی قوت اور اسلحہ سپلائی جاری رہتی تھی سید احمد شہید کی تحریک کا اصل مقصد ملک کو جبری قابص برطانوی سامراج سے پاک کرنا تھا نہ کہ اقتدار کا حصول۔ انہوں نے جہادی تحریک کے آغاز میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کو اپنے خطوط میں آگاہ کیا تھا ان کی اس تحریک کا مقصد انگریز سے اپنے وطن کو آزاد کرانا ہے اور جب ملک آزاد ہوجائے گا تو اقتدار اہل لوگوں کے حوالے کردیا جائے گا اس زمانے میں گوریلہ جنگوں کے لیے سب سے زیادہ سازگار علاقہ کشمیر تھا جس پر ڈوگرہ راج تھا۔ سیدین شہیدین نوشہرہ سے کشمیر کا ارادہ کرکے روانہ ہوئے تاکہ ڈوگرہ مظالم سے کشمیر کے مسلمانوں کو نجات دلائیں کیونکہ اس زمانے میں کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 95 فی صد تھی جبکہ ہندو اور سکھ صرف پانچ فی صد کشمیر سے متصل کاشغر جو آج چین کا حصہ ہے اس پر مسلم حکمران شاہ سلیمان کی حکومت تھی اور اس نے سیدین کی میزبانی اور معاونت کا عندیہ بھی دیا تھا سیدین نوشہرہ سے نکل کر جب روانہ ہوئے تو انہوں نے جنگ پکھیلی، جنگ شنکیاری، جنگ مایارا، حب اور ستھانہ کے مقام پر سکھوں کو شکست دی اور سکھ فوج تتر بتر ہوگئی۔ ان راستوں سے ہوتے ہوئے سید ین کا قافلہ فروری 1828ء کو سوات پہنچا سکھوں کی شکست در شکست کے بعد سکھ سلطنت کے سربراہ رنجیت سنگھ پر خوف طاری ہوگیا اس نے سید احمد شہید کو دریائے سندھ کے دائیں بائیں کے علاقے تاوان کے طور پر ادا کرنے کے ساتھ صلح کی پیش کش کی مگر سید احمد شہید نے اس کو رد کردیا۔ سیدین نے ایک طویل سفر کے بعد بالاکوٹ کو جنگی میدان بنانے کا فیصلہ کیا جو کشمیر کی سرحد کے بالکل ساتھ تھا اور سکھ فوجیں جنرل شیر سنگھ کی قیادت میں تحریک جہاد کا راستہ روکے کھڑی تھیں درمیان دریائے کنیار تھا سیدین نے بالاکوٹ کی اونچی پہاڑی سٹی کوٹ کے ٹیلے کو اپنی فوجوںکا مسکن بنایا مگر شومئی قسمت علاقے کے بعض مسلمان سردار اور خوانین مال اور امداد لے کر انگریزوں اور سکھوں کے جاسوس بن گئے اور انہوں نے مسلمانوں کے جہادی قافلوں کے ساتھ رہ کر مخبری کے فرائض انجام دیے ان کی یہ سازشیں آج تاریخ کا تاریک پہلو ہیں اور یہ تاریخ کا قاری اسے پڑھنے کے بعد سازشیں کرنے والوں پر نفرت کے تیر برساتا رہے گا۔ سیدین اپنے چند ہزار رفقاء کے ساتھ چاروں طرف سے سکھوں کے لشکروں میں گھر گئے مگر پھر بھی سمجھوتا نہیں کیا بلکہ دلیرانہ لڑتے ہوئے اپنی جانیں اللہ کے سپرد کردیں۔
جہاں تاریخ کے قاری ان عظیم ہستیوں کو آزادی وطن کے لیے بے یارومددگار اجنبی علاقے بالاکوٹ میں شہادت نوش کرنے پر ان کے قائدین سید احمد شہید شاہ اسماعیل شہید اور ان کے عظیم رفقاء کو خراج عقیدت پیش کرے گا وہ ہزارہ کے ان بکنے والے سرداروں اور خانوں کے ماتم بھی کرے گا جسے شورش کا شمیری مرحوم نے فرمایا تھا
واہ رے تیرا کیا کہنا سرزمین ہزارہ
تو نے جب بھی مارا سید کو مارا
یہ عظیم قدسی صفات اہل ایمان10مئی 1831ء اور ایک روایت کے مطابق 6مئی 14ذوالقعدہ 1831ء کو جام شہادت نوش کرکے تاریخ کے روشن صفحات کی زینت بن گئے اور دلیرانہ داستانیں رقم کرگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ تحریک اس قدر موثر تھی کی سیدین کے پیروکاروں کے ان کے بعد سوسال تک اسے کسی نہ کسی رنگ میں زندہ رکھا اور آخر کار اس خطے سے انگریز کو بھاگنے پر مجبورکردیا اور یہ تحریک ہماری ملی غیرت و اسلامی حمیت کی سب سے زیادہ پر تاثیر داستان ہے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بڑے اخلاص کے ساتھ صرف مسلمانوں سے نجات دلانے کے لیے اپنے گھر بار جائدادوں کو چھوڑا جیل کی کال کوٹھریوں اور کالے پانی کے جزیروں میں زندگی کے خوفناک دن بسر کیے لیکن جبین عزیمت پر کوئی شکن نہ آنے دی اور پائے ثبات میں کوئی سرزنش پیدا نہ ہونے دی ان کی زندگی کی تمنا صرف یہ تھی اپنی شاہ رگ کاخون بہا کر وطن کو آزاد کرائیں۔
لرزتی ہے ان سے نگاہ حیات
یہی لوگ ہیں حاصل کائنات