اسلام آباد: ہائیکورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی دو ہفتوں کے لیے ضمانت منظور کرلی ۔
عمران خان کو سپریم کورٹ کی جانب سے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لئے 2 رکنی ڈویژن بنچ تشکیل دے دیا۔ عدالت پہنچنے کے بعد عمران خان ڈائری برانچ میں گئے جہاں ان کا بائیو میٹرک کیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل دورکنی خصوصی ڈویژن بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی القادریونیورسٹی ٹرسٹ کرپشن کیس میں حفاظتی ضمانت کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
اپنے دلائل میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نئی نیب ترمیم کے بعد صرف انویسٹی گیشن میں وارنٹ گرفتاری جاری کئے جا سکتے ہیں۔عمران خان کی ضمانت کی درخواست دائر کی ہے، ہم نے ضمانت قبل ازگرفتاری یا حفاظتی ضمانت کی درخواست دی ہے۔القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کے خلاف کال اپ نوٹس کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کیا گیا ۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب نے گرفتاری کو یقینی بنانے کے لئے دانستہ وارنٹ آف اریسٹ چھپائے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو انکوائری رپورٹ فراہم کی گئی تھی۔
اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عمران خان کو انکوائری رپورٹ فراہم نہیں کی گئی،گرفتاری کے بعد دی گئی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں آپ کو کوئی سوالنامہ فراہم کیا گیا،کیا عمران خان اس نوٹس پر نیب کے سامنے پیش ہوئے۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کو سوالنامہ فراہم نہیں کیا گیا،صرف ایک نوٹس بھیجا گیا، عمران خان پیش نہیں ہوئے، جواب جمع کرایا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے اپنے دلائل میں کہا کہ جو پٹیشن یہاں دائر کی گئی اس کے لیے متبادل فورم موجود ہے، رٹ پٹیشن میں یہ معاملہ ہائیکورٹ لانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں، آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا گیا ہے، جس طرح کے پر تشدد واقعات ہوئے اس کے بعد فوج کو طلب کیا گیا۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ کیا یہاں مارشل لا لگ گیا ہے کہ ہم تمام درخواستوں پر سماعت روک دیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر عدالت اٹارنی جنرل کو بلا کر بھی سن لے۔ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے عدالت میں کہا کہ 15 جولائی کو انکوائری شروع ہوئی جس کے بعد کال اپ نوٹس جاری ہوا، عمران خان کبھی بھی انکوائری میں پیش نہیں ہوئے، اس کیس میں ایک بزنس ٹائیکون، زلفی بخاری اور دیگر کو نوٹسز ہوئے، میاں محمد سومرو، فیصل واوڈا اور دیگر کا بھی نوٹسز ہوئے جنہوں نے انکوائری جوائن کی،شہزاد اکبر کو بھی نوٹس ہوا مگر انکوائری جوائن نہیں کی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آئندہ سماعت پر ہم کیس سنیں گے اور فیصلہ کرینگے،آئندہ سماعت پر دلائل سن کر ضمانت منظوری یا خارج کرنے کا فیصلہ کرینگے۔، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کر کے آئیے گا جبکہ پراسیکیوٹر نیب کی عدالتی آرڈر کے بعد مزید بات کرنے کی کوشش ۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ خاموش رہیں، عدالت نے آرڈر کر دیا ہے۔بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی دو ہفتوں کے لئے عبوری ضمانت منظور کرلی۔جمعہ کے روز عمران خان کے وکلاء کی جانب سے القادریونیورسٹی ٹرسٹ کرپشن کیس میں حفاظتی ضمانت کے لئے چار درخواستیںدائر کی گئیں اور عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان کی کیس میں حفاظتی ضمانت منظور کی جائے۔
درخواستوںمیں چیئرمین نیب سمیت دیگر حکام کو درخواست ضمانت میں فریق بنایا گیا تھا۔درخواستیں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔درخواستوں میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف درج تمام مقدمات کی تفصیل فراہم کی جائے اور ان کے تمام کیسز کو یکجا کر کے سنا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کرپشن کیس میں ضمانت قبل ازگرفتاری کی سماعت کے لے دورکنی خصوصی ڈویژن بینچ تشکیل دیا۔ عمران خان کو سخت سکیورٹی میں پولیس لائنز سے اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کیا گیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ میں صرف عمران خان کی گاڑی کو جانے دیا گیا جبکہ دیگر گاڑیاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر روک دی گئی تھیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد عمران خان کوبائیومیٹرک کروانے کے لئے ڈائری برانچ لے جایا گیا جہاں سے انہیں 9مئی کو گرفتارکیا گیا تھا۔