بس بہت ہوچکا: عمران خان گرفتار

900

آخری حصہ

یہ فوج کے آئینی یا سیاسی کردار پر تنقید نہیں اس سے بہت آگے کی بات تھی۔ آئی ایس پی آر نے جس پر ایک پریس ریلیز میں شدید غم وغصے کا اظہار کیا۔ فوج نے کہا ہے کہ ’’چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمے دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں جو من گھڑت، بدنیتی پر مبنی، افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے یہ ایک مستقل طرز عمل بن گیا ہے جس میں فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ عمران خان نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمے دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں‘‘۔
منگل کے روز اسلام آباد روانگی سے پہلے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں عمران خان نے اس کے جواب میں آئی ایس پی آر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہر شہری کی ہونی چاہیے۔ میں اس وقت قوم کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہوں، قوم مجھے پچھلے پچاس برس سے جانتی ہے۔ مجھے جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس آدمی نے دو دفعہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی۔ جب بھی تحقیقات ہوں گی ثابت کروں گا کہ یہ وہ آدمی تھا اور اس کے ساتھ ایک پورا ٹولہ ہے۔ سوشل میڈیا کے زمانے میں سب کو پتا ہے کہ وہ کون ہے۔ اس آدمی کے خلاف میں اپنی ایف آئی آر نہ کٹوا سکا۔ اس کے خلاف تحقیقات ہوتیں اگر یہ بے قصور ہوتا سامنے آجانا تھا۔ میں ثابت کروں گا کہ سی ٹی ڈی کے کپڑوں کے اندراور وکلا کے کپڑوں کے اندر آئی ایس آئی تھی وہاں۔ ایک بریگیڈیر بیٹھا ہوا تھا وہاں نام بھی اس کا بتائوں گا جو سارامانیٹر کررہا تھا۔ کیا کام تھا آئی ایس آئی کا وہاں۔ ثابت کروں گا کہ انہوں نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی اور پیچھے یہی آدمی تھا۔ اسی آدمی کانام اور پیچھے جو ٹولہ تھا ارشد شریف کی والدہ نے قتل میں ان کا نام لیا تھا۔ یہ مقدس گائے ہیں۔ قانون سے اوپر ہیں۔ آئی ایس پی آر صاحب جب ایک ادارہ اپنی کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن لیتا ہے وہ اپنی کریڈیبیلیٹی بہتر کرتا ہے‘‘۔
الزامات لگانا اور پوری قوت اور شدومد سے لگانا عمران خان کی سیاست ابتدا ہی سے ان بنیادوں پر کھڑی ہے۔ وہ جب الزام لگاتے ہیں تو الزام ثابت کرنا ان کی ذمے داری نہیں ہوتا۔ الزام ثابت کرنا تو بڑی بات ہے وہ زیادہ عرصے اپنے الزام پر قائم بھی نہیں رہتے اور بڑی ڈھٹائی اور آسانی سے یوٹرن لے لیتے ہیں اور خود ہی تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ سیاسی پنکچر تھے۔ جب وہ کنٹینر پر چڑھے اقتدار کے لیے جدوجہد کررہے تھے شاید ہی کوئی ایسا دن جاتا ہو جب وہ اپنے مخالفین کو کسی نئے الزام کا ہدف نہ بناتے ہوں۔ دوران اقتدار بھی ان کی پوری توجہ کارکردگی سے زیادہ اپنے مخالفین پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں جیلوں میں ڈالنے پر رہی۔ وہ ایک ایسے شدید منتقم مزاج حکمران ثابت ہوئے جو جھوٹے الزامات لگا کر اپنے مخالف سیاست دانوں کو جیل میں ڈالنے میں ضمیر کی ادنیٰ سی خلش بھی محسوس نہیں کرتے تھے۔ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد امریکا بھی سائیفر کے معاملے میں ان کے جھوٹے الزام سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ساتھ ہی فوج کے اعلیٰ افسران کو بھی وہ اپنے الزامات سے رگیدتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کے پاس آئی ایس آئی اور اس کے افسر اور اس سے متعلقہ ٹولے سے متعلق اتنے ہی پختہ الزامات تھے تو انہوں نے اس اعلیٰ عدلیہ سے کیوں رجوع نہیں کیا جو ان کے سہولت کار کے فرائض ادا کررہی ہے۔
جھوٹے الزامات کے جواب میں متاثرہ فریق کے پاس ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے کا راستہ باقی بچتا ہے جس میں سات سال تک کی سزادی جاسکتی ہے لیکن ہمارے یہاں یہ راستہ بھی عموماً غیر موثر ہی رہتا ہے۔ کئی کئی برس مقدمات چلتے رہتے ہیں اور حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی کے اسد عمر اور شیریں مزاری نے موقف اختیار کیا ہے کہ ادارے کے ساتھ ہمارا کوئی ٹکرائو نہیں بلکہ عمران خان نے ایک حاضر سروس آفیسر کے خلاف الزامات عائد کیے ہیں۔ یہ ایک کمزور دلیل ہے۔ کسی بھی آفیسر کا عمل اور کوئی بھی اقدام ادارے سے ماورا نہیں ہوتا۔ آئی ایس آئی فوج کا ایک اہم ترین ادارہ ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ آپ آئی ایس آئی کو کسی معاملے میں ملوث کریں اور فوج بدنام نہ ہو۔ بھارت امریکا اور پاکستان کے دیگر دشمن مل کر بھی پاکستانی فوج کو اس درجے برا بھلا نہیں کہہ سکتے، اس درجہ مطعون نہیں کرسکتے تھے، جو کام عمران خان نے کردکھایا ہے۔ کوئی تصور کرسکتا تھا کہ پاکستان کے عوام جی ایچ کیو پر حملہ کریں گے یا کور کمانڈر ریسٹ ہائوس کو نشانہ بنائیں گے۔ ایوب خان کے زمانے ہی سے پاکستان کے سیاست دانوں کو فوج سے شکایات رہی ہیں لیکن آج تک کوئی سیاسی جماعت یوں فوج سے برسر پیکار نہیں ہوئی جس کا مظاہرہ تحریک انصاف کررہی ہے۔
عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ سب کو چور اور ڈاکو سمجھتے ہیں۔ جس مقدمے القادر ٹرسٹ کیس میں انہیں گرفتار کیا گیا ہے اس کی تفصیلات ظاہر کرتی ہیں کہ وہ خود کتنے بڑے بددیانت اور کرپٹ ہیں۔ اس معاملے کا تعلق 190 ملین پاؤنڈ کی اس رقم سے ہے، جو برطانیہ نے 2019 میں ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزام میں برآمد کر کے پاکستان واپس بھجوائی تھی۔ اس رقم کو پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کرنے کے بجائے عمران خان کی حکومت نے عدالت عظمیٰ کے اس کھاتے میں جمع کرانے کی منظوری دی، جہاں عدالت نے ملک ریاض کو بحریہ ٹاؤن کراچی کی اسکیم کے لیے زمینوں کی خریداری میں ہیرا پھیری پر چارسو ساٹھ ارب روپے سے زائد کا جرمانہ جمع کرانے کا حکم دے رکھا تھا۔ اس مقدمے میں ملک ریاض پر کراچی بحریہ ٹائون کے لیے مارکیٹ سے کم قیمت پر سرکاری زمینوں کے غیر قانونی حصول کا الزام تھا۔ ملک ریاض نے اس احسان کے بدلے میں ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین القادر خیراتی ٹرسٹ کے ذریعے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بطور عطیہ لیکن درحقیقت رشوت میں دی۔ القادر ٹرسٹ ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم کے طور پر عمران خان نے اپنی موجودہ اور تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ مل کر 2018 میں قائم کیا تھا۔ عمران خان اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ معاملہ عطیہ کا نہیں بلکہ بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ عمران خان کے خلاف ایک مضبوط کیس ہے جس سے ان کا بچنا بہت مشکل ہے۔ اس کیس میں متعدد مرتبہ عمران خان کو طلب کیا گیا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ عمران خان کل کسی اور کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بائیو میٹرک کے لیے بیٹھے ہوئے تھے کہ رینجرز نے انہیں عبدالقادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کرلیا۔
عمران خان کو عرصے سے مختلف معاملات میں حد سے بڑھ کر سہو لتیں دی جارہی تھیں جن کی وجہ سے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ انہیں کسی بھی صورت گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ اس غلط فہمی میں وہ ایک کے بعد دوسری حد یاریڈ لائن پامال کرتے چلے گئے یہاں تک کہ انہوں نے بم کو لات ماردی۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پورا ملک پی ٹی آئی کے کارکنوں کے اشتعال اور منظم حملوں کی زد میں ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں فوج طلب کرلی گئی ہے۔ اللہ پاکستان پررحم کرے