جس گرفتاری کو لے کر دنیا پریشان ہے ہمیں کہا گیا کہ خاموش رہو کچھ نہ کہو، سو حکم حاکم مرگ مفاجات کہ مصداق ہم چپ ہی رہے اور راوی دیکھتا چلا گیا پڑھتا چلا گیا، نہ کہنے کی اجازت نہ لکھنے کی۔
ہم کلس کر رہ گئے چونکہ تدریس سے وابستہ ہیں تو جامعہ میں وارد ہوتے ہی بچوں سے کہہ دیا آج کچھ نہ کہا جائے ہم کو خاموش رہنا ہے مگر کیا کیجیے کہ استاد وہ بھی مطالعہ پاکستان کا اوپر سے کورس صحافت کا جسے ادب سے تقابل کرنا ہے وہ بھی عصری تقاضوں کے تحت اب بندہ بشر جائے تو جائے کہاں؟ جامعہ کراچی کی مٹی بڑی زرخیز ہے اور اس پر سینٹر بھی ہو پاکستان اسٹڈی کا تو جانیے یہاں آ کر مجھ سے تو لیکچرز دیے نہیں جاتے، ربّ العالمین کے اذن سے محض اک ’’کن‘‘ کے تحت دہن سے ادا ہوجاتے ہیں سو لاکھ نہ کہنے کی قسم کھا کر بھی،
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
پھر بھی اپنے سامنے موجود نوجوانوں کے تلاطم خیز جذبات مجروح نہ ہو جائیں الفاظ و انداز کا تیشہ ہلکا ہی رکھا کیونکہ سامنے کیفیت کچھ یوں تھی کہ چند چاہنے والے تھے اور چند نہ چاہنے والے، کس کے؟ ارے جناب اس موضوع کے جس پر میری زبان بند تھی
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
جیسے تیسے کلاس لے کر لائبریری میں لکھنے لکھانے کی خاطر نشست سنبھالی موبائل پر ٹائپ کرنے سے پہلے اسٹیٹس اسکرول کرتے ہوئے اس اسٹیٹس پر نظر پڑی جس میں قائد اعظم کی تصویر بنا کر لکھا گیا کہ: ’’میں نے اپنی گاڑی خود خراب کی‘‘۔
اسی طرح تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے طنز و مزاح کے تیر چلائے گئے تھے اب تو ضبط کی طنابیں چھوٹ گئیں اور اس چند لفظی پیغام میں الزام جس ’’ایک‘‘ کے سر لگایا گیا تھا اس ’’ایک‘‘ کا انجام بھی تاریخ کی سب ہی تصویروں میں وہی ہوا جو دوسروں کا تھا یعنی مجرم کوئی اور تھا جرم کسی اور کے سر منڈھا گیا پھر مجھے خاموشی جرم لگی جس کی تلافی بولنے ہی سے ممکن تھی سو لکھنا ہی پڑا۔ ایک ننھے منے چھونے کاکے ’’ہینڈسم‘‘ کا دفاع کرتے کرتے آپ جسے ولن بنا کر جوتے مار رہے ہیں آپ نہیں جانتے کہ یہ کہانی نئی نہیں ہے یہ میرے اور آپ جیسے بہت سے عاقل و بالغ افراد کی ’’خاموشی‘‘ کا شاخسانہ ہے۔
محمد علی بوگرہ نے امریکا یاترا اور امریکی غلامی کا تاج آپ کے ملک کو پہنایا تھا ان کو کس نے مسند اقتدار پر بٹھایا اور پھر ہٹایا تھا؟ اسکندر مرزا نے مسند سیاست پر کس کس کو پالا تھا اور پھر ان سے استعفا لیتے ہوئے پردے کے پیچھے کون پستول لے کر کھڑا تھا، صدر ایوب کو ’’ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگا کر اپنوں ہی نے گرایا تھا۔ اور اس جرنیل کے جوتے اپنی گود میں رکھ کر اسے ڈیڈی ڈیڈی کہتا ہوا کوئی کیسے اقتدار میں آیا تھا؟ اور پھر بھٹو کو بھٹو ہی کا پسندیدہ جرنیل ضیاء الحق پھانسی لگا کر کیسے آیا تھا؟ اور اس ضیاء کو وردی سمیت دیگر وردی والوں کی ہمراہی میں کس کے ایماء پر فضا میں مار گرایا تھا؟ پھر کیسے چوہے بلی کی جمہوریت کے میوزیکل پروگرام میں بی بی، بابا، بابا، بی بی، پھر بی بی، بابا اینڈ فیملی سے متعارف کروایا تھا؟ پھر حکم کے پتے نے بی بی کا پتا صاف کراکر نشان کیسے مٹایا تھا؟ جو بچا تھا اک شریف اسے کعبہ کس نے پہنچایا تھا؟ وہ نوسو چوہوں کو کھاتا رہا اور الزام اس پر نیازی نے حج کا لگایا تھا؟۔
یہ سب تو ہوگیا اب چھوڑو رہنے بھی دو تم کیا بتاؤ گے میرے بچو! تم اتنا ہی بتا دو کہ کوکین پی کر انکل باجوہ کا تین سالہ دور کس نے بڑھایا تھا؟ بڑھ ہی گیا تھا گر غلطی سے تو اس غلطی پر نیازی کیونکر پچھتایا تھا؟ پھر اس نے اگلے پچھلے مصالحوں کا تڑکا لگا کر عوام سے absolutely not کیوں بلوایا تھا؟ پھر اس کے بعد ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ ریلیز کروا کے امریکا دوستی کا ہاتھ کس نے بڑھایا تھا؟ اور اب تو آپ سب دوست تھے سمجھ میں نہیں آتا ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ وہیل چیئر سے اٹھا کر آپ کے ہینڈسم کو کس نے اور کس طرح چلایا تھا۔ خیر جو کچھ بھی ہوا گستاخی معاف کیجیے اور صحت کاملہ و عاجلہ کی مبارک باد لیجیے قوم کو خان کی جلدی ریکوری کی مبارک ہو۔