سب کی نظریں ترکیہ پر ہیں

1185

دنیا بھر کے بہت سے اخبارات اور ٹیلی ویژن نے اس وقت اپنی نظریں ترکیہ کی طرف موڑ لی ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ ترکیہ میں ہونے والے 14 مئی 2023 کے انتخابات ہیں۔ ترکیہ کی 6 اپوزیشن جماعتوں نے آئندہ انتخابات میں موجودہ صدر رجب طیب اردوان کے خلاف مشترکہ امیدوار کمال قلیچ داراوغلو کو کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے جو اہم اپوزیشن ری پبلکن پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں اور 2019 میں استنبول اور انقرہ میں میونسپل الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ترک میڈیا کے مطابق 6 اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کمال قلیچ داراوغلو اردوان کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے یہ انتخابات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لیے دنیا لمحہ بہ لمحہ ترکیہ میں ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ بہت سے ٹیلی ویژن اور اخبارات جو الیکشن کی صورتحال کو سمجھنے ہیں وہ 2023 کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ترکیہ کے انتخابات کو اہم واقعہ کے طور پر دکھارہے ہیں، لمحہ بہ لمحہ پیش رفت اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچا رہے ہیں۔
عالمی پریس، جس نے ترکیہ پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے، نے استنبول کے عظیم الشان جلسے کو اپنے صفحات کی زینت بنایا ہے۔ جس میں بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق 17 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اردوان کے الفاظ انگلینڈ سے لے کر امریکا تک، یونان سے لے کر فرانس تک کئی ممالک میں اخبارات کی شہ سرخیاں بنے ہیں۔ استبول کے اتاترک ائرپورٹ کے نیشن پارک میں ہونے والی اس عظیم الشان ریلی نے بین الاقوامی میڈیا میں وسیع اور بھرپور کوریج حاصل کی۔ اس انتخابی جلسے کو صدی کا سب سے بڑا سیاسی جلسہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ وہ ترکیہ کی سو سالہ تاریخ رقم کریں گے اور اپوزیشن اتحاد کو ملک تقسیم کرنے کا موقع نہیں دیں گے۔
فرانس کے میڈیا نے اپنے قارئین کے سامنے اس عنوان سے اس پیش رفت کو پیش کیا کہ اردوان نے استنبول میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور مخالفین پر واضح کردیا ہے کہ ’’ہم ہی جیتیں گے‘‘۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ اردوان نے اپنے حامیوں کے سمندر کو پکارا تو ان کے حامی اتوار کو انتخابات سے قبل طاقت کے مظاہرے کے لیے جمع ہوگئے۔ بروٹوتھیما نے کہا کہ ترک صدر جنہوں نے استنبول میں عظیم الشان جلسہ کیا اس میں انہوں نے اپنے اہم حریف پر دہشت گردوں کے ساتھ کام کرنے کا الزام لگایا ہے۔
یونانی اخبار نے خبر دی ہے کہ صدر رجب طیب اردوان نے 14مئی کے انتخابات سے قبل اپوزیشن لیڈر اور مرکزی حلیف کمال قلیچ دار اوغلو کو سب سے بڑی انتخابی ریلی میں نشے میں دھت قرار دیا ہے۔ برطانیہ کے میڈل ایسٹ آئی نے کہا کہ اردوان اتوار کو استنبول کے جلسے عام میں پوزیشن پر LGBT کے حامی ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل نے ریلی کو ’’بے مثال‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ٹرن اوٹ 1.7 ملین‘‘ تھا۔ ایک اور اخبار ٹائمز نے اردوان اور ان کے حریف کمال قلیچ دار اوغلو کے بارے میں لکھا کہ وہ اور ان کے حریف کمال قلیچ دار عوام کو اچھی طرح اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یورو نیوز نے اپنے قارئین کے لیے سرخی لگائی کہ ترک صدر اردوان اپنے حامیوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ’’وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں‘‘۔ آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات سے صرف ایک ہفتہ قبل صدر رجب طیب اردوان اپنی تیسری مدت اور اپنی پارٹی کی طاقت کو محفوظ بنانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔
امریکا میں شائع ہونے والے ہفتہ وار میگزین بیرینز نے اپنے انٹرنیٹ ایڈیشن میں خبر دیتے ہوئے لکھا کہ اردوان استنبول میں پاور ریلی کی قیادت کرتے ہوئے۔ امریکی میگزین کی خبر جس میں کہا گیا تھا کہ عوام استنبول کے پرانے اتاترک ہوائی اڈے کی زمین پر کندھے سے کندھا ملا کر جمع ہوئے۔ اس اخبار نے اردوان کے بیانات کو بھی کافی جگہ دی۔ گریک نیوز بم نے لکھا کہ اردوان نے انتخابات سے ایک ہفتہ قبل اب تک کی سب سے بڑی ریلی نکالی ہے۔
انتخابات سے چند روز قبل، بھارت کے ایک اخبار ’’فرسٹ پوسٹ‘‘ سے اردوان کے متعلق قابل ذکر تجزیہ سامنے آیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ’’رجب طیب اردوان، جو ایک خصوصی آئین کے تحت وزیر اعظم اور پھر ایک انتہائی طاقتور صدر منتخب ہوئے تھے، نسلوں سے ترکی کے سب سے اہم رہنما رہے ہیں‘‘۔ اردوان اپنی جوانی میں فٹ بال کھیلتے تھے، اخبار نے اردوان کو ’’باصلاحیت خطیب‘‘ قرار دیا۔ خبر میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ’’اردوان کو الیکشن نہیں ہارنا چاہیے‘‘۔ اخبار کے مطابق وہ ایک تجربہ کار مہم جو ہیں، اردوان اسٹیج پر بہت پر جوش ہو کر آتے ہیں۔ وہ ایک باصلاحیت اسپیکر ہیں جو اپنے دفاع سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور کبھی بھی قومی الیکشن نہ ہارنے پر فخر کرتے ہیں۔ علاقائی اور عالمی مسائل میں اردوان کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے، اخبار نے کہا: ’’ترک رہنما نے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ترکی کی اسٹرٹیجک پوزیشن کا استعمال کیا، جو بحیرۂ اسود کے جنوبی ساحلوں اور بحیرۂ روم کے شمالی ساحلوں کی حفاظت کرتا ہے، تاکہ سفارتی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اردوان نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں ثالثی کا کردار ادا کیا، اخبار نے مزید لکھا کہ: ’’اردوان ان چند عالمی رہنماؤں میں سے ایک بن گئے ہیں جن کی ولادیمیر پیوٹن اور روس کے توانائی کے وسیع وسائل تک کھلی رسائی ہے‘‘۔ اناج کے بحران کو حل کرنے میں اردوان کے کردار کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے، اخبار نے کہا، ’’یوکرین کی اناج کی برآمدات کو دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے میں ثالثی کرنے پر اردوان کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے‘‘۔