میڈیا کی بدولت لمحہ بہ لمحہ بدلتے سیاسی آتش فشاں سے نکلتی کوئی تپش، کوئی خبر کوئی راز زیادہ دیر تو مخفی رہتا نہیں، جلد ہی پتا چل جاتا ہے کہ وہ کون تھا۔ اس کے باوجود عمران خان کو بہر حال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ ’’ڈرٹی ہیری‘‘ کو کافی عرصے سسپنس اور تجسس کے پردے میں مخفی رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جیسے ہی ڈرٹی ہیری کا نام انہوں نے ظاہر کیا گرفتارکر لیے گئے۔ شخصیت پرستی نے لوگوں کی عقل، دانش، فہم، قوت فیصلہ اور مردم شناسی جیسی صفات تو عرصہ ہوا چھین لی۔ ہر سیاسی گروہ اپنے حصے کے احمق کی پوجا کررہا ہے۔ عمران خان نے سیاسی نعروں کے فطری اظہار کو بھی تجسس کے تنوع میں ڈبو دیا۔ ہماری سیاسی قوتیں جن غیر جمہوری قوتوں سے نبرد آزما رہی ہیں ان کے ہیولوں اور سایوں کو بھی کسی نہ کسی درجے میں شناخت کر لیا جاتا تھا لیکن عمران خان نے جب مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کا نام لیا تو اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کس اہلکار کو ہدف کررہے ہیں۔ اسی طرح جب انہوں نے ڈرٹی ہیری پر اپنی پارٹی کے خلاف وفاقی حکومت کے منصوبوں کو انجام پر پہنچانے کا الزام لگایا تب بھی چند سرگوشیوں کے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ ڈرٹی ہیری کون ہے۔ حتی کہ اعظم سواتی کی گرفتاری اور پھر انہیں برہنہ کرکے تشدد کرنے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے جب عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد میں ایک ڈرٹی ہیری آیا ہوا ہے تب بھی واضح نہیں ہوسکا کہ وہ ڈرٹی ہیری کس کو کہہ رہے ہیں۔
ہالی وڈ کی فلمیں دیکھنے والے تو ڈرٹی ہیری کے کردار سے آگاہ تھے۔ ڈرٹی ہیری کا کردار 1971 میں اسی نام سے ریلیز ہونے والی ہالی وڈ فلم میں مشہور اداکار کلنٹ ایسٹ وڈ نے ادا کیا تھا۔ اس فلم میں ایسٹ وڈ ایک ایسے پولیس والے کے روپ میں نظر آیا تھا جو خطرناک مجرموں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالنے کے بجائے انہیں سڑک پر گولی مار کر انصاف کرنے کا قائل تھا۔ وہ تمام ایسے ماورائے قانون کام کرتا تھا جو دیگر پولیس والے نہیں کرتے تھے۔ ایک منظر میں ایک ساتھی اس کے بارے میں کہتا ہے ’’ہمارے ہیری کی ایک خاص بات ہے وہ کسی کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ سب سے نفرت کرتا ہے‘‘ اس کا خود اپنے بارے میں بھی کہنا یہ تھا کہ ’’مجھے ڈرٹی ہیری اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ہر گندہ کام میرے ذمے لگایا جاتا ہے‘‘ مختصر یہ کہ ڈرٹی ہیری سے مراد ایسا قانون نافذ کرنے والا اہلکار ہوتا ہے جسے قانون کی پروا نہیں ہوتی۔ جو طاقت کے استعمال کو ترجیح دیتا ہے اور ہر طرح کے کام کے لیے تیار رہتا ہے۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ مشہور برطانوی مصنف کرسٹوفر اسٹین فرڈ نے عمران خان پر لکھی اپنی کتاب ’’عمران خان: دی کر کٹر، دی سلیبرٹی، دی پولیٹیشین‘‘ میں عمران خان کا موازنہ بھی کلنٹ ایسٹ وڈ کے ڈرٹی ہیری سے کیا تھا۔
ڈرٹی ہیری کی حقیقت راز ہی رہتی اگر کئی دن پہلے خود عمران خان اس سسپنس کا خاتمہ نہ کردیتے اور میجر جنرل فیصل نصیرکا نام نہ لیتے جو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈی جی سی (ڈائریکٹر جنرل کائونٹر انٹیلی جنس) ہیں۔ یہ داخلی سیکورٹی سے متعلق آئی ایس آئی کا ایک شعبہ ہے۔ ملک کے اندر سیکورٹی کا انچارج ڈی جی سی ہوتا ہے۔ چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے بعد ڈی جی سی ریاست کا تیسرا اہم ترین عہدہ ہوتا ہے۔ جب سے میجر جنرل فیصل نصیر اس عہدے پر آئے عمران خان انہیں مسلسل ٹارگٹ کررہے تھے۔ شہباز گل کی گرفتاری ہو یا اعظم سواتی کی عمران خان انہیں مطعون کررہے تھے لیکن براہ راست نہیں ڈرٹی ہیری کی اصطلاح کے پردے میں۔ جب تین نومبر 2022 کو وزیرآباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کا الزام بھی انہوں نے میجر جنرل فیصل نصیر پر ہی لگایا۔ لیکن ان کا نام انہوں نے تنہا نہیں لیا تھا بلکہ یہ کہا تھا مجھ پر قاتلانہ حملے میں جو چار افراد ملوث ہیں ان میں وہ بھی شامل ہیں۔ ایک قاتلانہ حملے میں براہ راست فائرنگ میں ملوث نوید احمد، دوسرے شہباز شریف تیسرے رانا ثنااللہ اور چوتھے جنرل فیصل نصیر۔ عمران خان نے جنرل فیصل نصیر کا نام ایف آئی آر میں ڈلوانے کی کوشش کی۔ چودھری پرویز الٰہی ان دنوں پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور عمران خان کے زیر بار احسان بھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے آئی ایس آئی کے افسرکے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہونے دی۔
اس کے بعد عمران خان نے خاموشی اختیار کرلی۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ لوگوں نے خیال کیا کہ عمران خان محتاط ہوگئے ہیں یا پھر ڈی جی سی سے ان کی صلح ہوگئی ہے۔ لیکن پچھلے دو ہفتے سے وہ شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کا نام بھول کر ایک مرتبہ پھر میجر جنرل فیصل نصیر کے خلاف تندی سے سرگرم ہوگئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ جب ایک مقدمے میں پیش ہونے کے لیے جوڈیشل کمپلیکس میں پیش ہونے کے لیے گئے تو جنرل صاحب نے ایک مرتبہ پھر سی ٹی ڈی پولیس کی وردی اور وکلا کے کالے کوٹ پہنے اپنے ماتحت اہلکاروں کے ذریعے انہیں قتل کروانے کی کوشش کی۔ منصوبہ یہ تھا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور پولیس کی جھڑپوں کے دوران ان پر حملہ کیا جائے گا۔ قبل از وقت علم ہوجانے کی وجہ سے عمران خان اپنی بلٹ پروف گاڑی اور حفاظتی دستے کے حصار سے باہر ہی نہیں آئے۔ متعلقہ جج نے حاضری کے دستخط کے لیے فائل گاڑی میں ہی بھجوا دی۔ یہ عدالتی تاریخ میں حاضری لگوانے کی ایک نئی روایت تھی لیکن اس کے باوجود عمران خان مطمئن نہیں ہوئے۔
دو روز پہلے جب وہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے یکجہتی کے اظہار کے لیے نکلے تو انہوں نے تمام حدود کراس کرڈالی۔ یہ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت پر ڈرون اٹیک نہیں بلکہ نیوکلیر اٹیک تھا۔ عمران خان نے کیا کہا تھا ذرا سنیے ’’میں نکل رہاہوں۔ جان کو خطرہ ہے۔ دو دفعہ میرے اوپر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں مجھے مارنے کی کوشش کی گئی۔ میں نام لیتا ہوں۔ دونوں دفعہ ان کے پیچھے جنرل فیصل نصیر تھا۔ مجھے بھی اس نے مارنے کی کوشش کی۔ جو تشدد ہوا اعظم سواتی پر اس کے پیچھے بھی یہی تھا۔ ارشد شریف کے قتل کے پیچھے بھی یہی تھا۔ تو میں آج کہہ رہا ہوں کہ مجھے کچھ ہوا، میں نکلنے لگا ہوں۔ میں جلسے کروں گا۔ اگلے ہفتے سے چودہ مئی تک میں جلسے کروں گا۔ کچھ مجھے ہوا ساری قوم سے کہہ رہا ہوں کہ جنرل فیصل نصیر کا نام یاد رکھ لو۔ یہ ذمے دار ہوگا‘‘۔
عمران خان نے اپنی ویڈیو میں میجر جنرل فیصل نصیر پر جو الزام لگائے وہ معمولی نہیں تھے۔ یہ انتہائی گھنائونے اور خطرناک الزامات تھے۔ عمران خان کے مطابق جنرل نصیر ایک سابق وزیراعظم پر دو مرتبہ قاتلانہ حملے کرواچکے ہیں، زیر حراست افراد پر تشدد کرنے میں بھی ملوث ہیں اور ارشد شریف کا قتل بھی ان کے کہنے پر ہوا۔ ان الزامات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جس کے اندر بیٹھ کر اس کے عہدیدار یہ سب گھنائونے کام کرتے ہیں۔ فوج کے ایک انتہائی اہم ادارے کے خلاف یہ انتہائی زہریلا بدترین اور خوفناک پرو پیگنڈہ ایک ایسے سابق وزیراعظم کی جانب سے کیا جارہا تھا جو ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہے جسے یورپ امریکا، مشرق وسطیٰ کے ممالک اور عالمی میڈیا میں نمایاں کوریج دی جاتی ہو۔ بغیر شواہد اور ثبوت کے محض آئی ایس آئی نہیں بلکہ فوج بحیثیت ادارہ اور جنرل عاصم منیر بھی ان الزامات کی زد میں آتے ہیں کہ ان کے نیچے رہ کر جنرل فیصل نصیر یہ سب گھنائونے کام کررہے ہیں۔ یہ فوج کی ہائی کمان کو مکمل طور پر گندہ کرنے اور بدنام کرنے کی وہ کوشش ہے جس کے سامنے فوج پر 2018 کے انتخابات میں بدعنوانی کرنے اور عمران خان کو لانے جیسے الزامات بچوں کی غائوں غائوں محسوس ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)