متنازع ریاست جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں حکومت ہند G-20 کے مجوزہ اجلاس کی تیاریوں میں مصروف عمل ہے۔ 60 فی صد آبادی پر مشتمل G-20 ممالک دنیا کی 75 فی صد تجارت پر قابض ہیں۔ ہزارہا اختلافات کے باوجود یہ مجوزہ اجلاس بین الاقوامی قدر و منزلت کا حامل ہے جس کی اہمیت اور افادیت سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس اجلاس کے دور رس اثرات نہ صرف جی 20 ممالک کے عوام بلکہ ایشائی خطے کے ساتھ ساتھ اقوامِ عالم پر بھی مرتب ہوںگے۔ ہم نیو ورلڈ آرڈر کے بعد دنیا میں ’’دشمن دوست بن گئے‘‘ کا مشاہدہ بھی کر چکے ہیں۔ معیشت کے اس دور میں کئی ممالک اپنے دیرنہ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر باہم روابط کو مربوط و مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔ یورپ کی کئی دہائیوں پر محیط جنگ کا خاتمہ، دیوار برلن کا مسمار ہونا جیسی ماضی بعید کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ماضی قریب میں ہمارے ہی خطے میں چین اور بھارت نے گولان تناؤ کے باوجود سفارتی اور معاشی تعلقات کو منقطع نہیں ہونے دیا۔ سعودی عرب اور ایران کی باہم مخاصمت نے مسلم امہ کو عرصہ دراز سے بدترین نقصانات سے دوچار کیے رکھا لیکن موجودہ دور میں دنیا گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کرنے کے بعد انہیں بھی باہم اختلافات کو رفع کرنے پر مجبور کیا۔ دونوں ممالک نے امن معاہدے پر نہ صرف دستخط کیے بلکہ 2001 کے سیکورٹی تعاون کے معاہدے اور معیشت سمیت دیگر مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے 1998 کے معاہدے کو بھی فعال کرنے، اچھے ہمسایہ تعلقات کو فروغ دینے، اختلافات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے کا عہد بھی کیا ہے۔ یہ سب عوامل ایک نئے مرحلے کے آغاز کی نشاندہی کرتے ہیں، ایشیائی خطے کے مسلمانوں کو اس نادر موقع سے مکمل استفادہ کرنے اور اس سے تغافل برتنے کی رائی کے دانے کے برابر بھی گنجائش نہیں۔
انتشار کی اس دنیا میں صرف کشمیر کا مسئلہ ہی درپیش نہیں ہے اس لیے آہنی پردوں میں چھید ڈالنے اور امن و امان کی فتح کے لیے گفت شنید واحد راستہ ہے جس سے درپیش چیلنجوں سے نمٹا جاسکتا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین دیرینہ حل طلب مسائل نے دونوں ممالک کے عوام کو خط غربت سے بھی نیچے گرا دیا ہے۔ باہم معاندانہ عمل ناقابل تلافی نقصانات اور برس ہا برس سنگیں نتائج بھگتنے کا شاخسانہ ہی ثابت ہوسکتے ہیں جس سے چھٹکارے کا واحد کلیہ مقابلہ بازی کے بجائے ترک عدم برداشت اور ایک دوسرے کے لیے وسعت قلبی کا مظاہرہ ہی ہوسکتا ہے۔ دونوں ممالک کے سیاسی اور عسکری عمائدین نے بار ہا اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے کہ ہم پڑوسی بدل نہیں سکتے۔ متعدد بار پاک بھارت ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوکر جنگ و جدل میں بھاری جانی و مالی نقصانات کے سوا کچھ حاصل نہ کرسکے، باہم متصادم تجربات سے گزرنے اور بے سود سرمائے کے زیاں کا ادراک ہونے کے باوجود دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں سرگرداں ہوگئے جس کے نتائج کے تصور سے اشرف المخلوقات الامان الحفیظ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔
اس مسلمہ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاک بھارت ترقی کے افق پر راستہ متعین کرنے والے ستاروں کی مانند پورے آب و تاب کے ساتھ فروزاں ہوتے اگر تقسیم ِ ہند کے وقت مسئلہ کشمیر کو بغیر حل کیے نہ چھوڑا جاتا، دونوں ممالک کبھی بھی دہشت گردی اور تخریب کاری کے شکار نہ بنتے، دونوں ریاستیں کسی کے اثر رسوخ کے زیر اثر نہ رہتے، کوئی تیسرا انہیں اپنے مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال میں نہ لاتا، ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے چکر میں دونوں ممالک واشنگٹن کا طواف کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ حقیقت حال یہی ہے کہ یہ سب کر گزرنے کے بعد بھی دونوں ممالک اپنا جغرافیہ بدل نہ سکے اور اس لاحاصل سعی سے باز آنے تک یقینا دونوں ممالک اپنی تاریخ بدلنے پر بھی قادر نہیں ہوسکتے۔
بلا شک و شبہ بھارت سرکار لاکھ کوششیں اور تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بھارت G-20 ممالک کو ’’کشمیر میں سب ٹھیک ہے‘‘ کا ڈھونگ رچا کر احمق نہیں بنا سکتا کیونکہ یہ ممالک زمینی حقائق جاننے کے لیے لاکھوں ڈالرز تحقیق پر صرف کرتے ہیں اور اسی کے مطابق حکمت عملی ترتیب دے کر اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں، G-20 ممالک متنازع ریاست جموں کشمیر میں مجوزہ اجلاس کی بھارتی تیاریوں سے مکمل آگاہ ہیں۔ اس اجلاس کی حفاظت کے لیے بھارت نے بری، بحری اور فضائیہ افواج کے بہترین فورسز کی خدمات حاصل کیں، اس اجلاس کے نمائندگان کی حفاظت کے لیے بری و بحری کمانڈوز کی تعیناتی چہ معنی دارد؟ بھارت سرکار اتنی ہائی سیکورٹی انتظامات کرنے پر کیوں مجبور ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن سے G-20 ممالک بخوبی باخبر ہیں اور تحفظات بھی رکھتے ہیں۔ ان تمام تر انتظامات سے بھارت نے بنفس نفیس اعتراف کیا ہے کہ کشمیری بھارت کے جبری تسلط کے خلاف مزاحم ہیں۔ متنازع ریاست میں بالجبر خاموشی کشمیر کی بدقسمت صورتحال کی عکاس ہے بھارت کشمیریوں کے ردعمل سے خوفزدہ ہے اور بخوبی واقف ہے کہ خاموشی کے اس بارود کو ایک چنگاری کی ضرورت ہے جو جموں و کشمیر کے عوام کے صبر کو پارہ پارہ کر سکتی ہے اور بھارت کے تمام تر منصوبے بیک جنبش تل پٹ ہوسکتے ہیں۔ کشمیر کی اس خوفناک صورتحال میں مبتلا بھارت تب تک عہدہ برآ نہیں ہوسکتا جب تک کشمیریوں کو ان کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق نہ دیا جائے۔
بھارتی سنگینوں میں منعقد ہونے والے G-20 اجلاس سے کیا برآمد ہونا ہے ڈھکا چھپا نہیں۔ بلا شبہ ایشائی خطہ دنیا کی 25 فی صد آبادی کی منڈی ہے لیکن موجود تناؤ اور امن و امان کی دگر گوں صورتحال میں اس خطے کا رخ کرنا کسی کے لیے بھی ہلاکت سے کم نہیں۔ بھارت نہ جانے احمقوں کی کس جنت میں محو خواب ہے جو اس خطے کے دیرینہ تنازعے کو حل کیے بغیر بلا شرکت غیرے اجارہ داری کا خواہاں ہے۔ اگر بھارت کو تنہا پرواز بھرنے کا بھوت سوار ہو ہی چکا ہے تو ایک دفعہ اس خطے کی سیاسی، اقتصادی، بین الاقوامی سلامتی اور دفاعی تنظیم ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ (جس کا اجلاس بھارت ہی کی صدارت میں چند ہی روز قبل بھارتی ریاست گوا میں منعقد ہوا ہے جس کے اجلاس کی کارروائی کی سیاہی ابھی تک خشک بھی نہیں ہوئی ہوگی) اور جو جغرافیائی دائرہ کار اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے سے دستبردار ہوکر اپنی حیثیت کو پہچانے کی کوشش کرے۔ پڑوسیوں کے مدمقابل لا کھڑا کرنے والے ہزاروں ہا میل دور QUAD ممالک جن سے براہ راست نہ بری، نہ بحری اور نہ ہی فضائی روابط ہیں کے سہارے بھارت کا اس خطے میں جینا محال ہے۔
ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے باہم تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کے میز کو سجانے میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ مسائل جب درپیش ہوں تو ماہرین مل بیٹھ کر نئی راہوں کی تلاش پر غور کرتے ہیں، اتفاق اور اختلاف کرتے ہیں، وسیع تر مفادات کے پیش نظر مشترکات پر متفق ہوتے ہیں، اسی کے مطابق لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے کی اسی حکمت ِ عملی پر عمل پیرا ہوکر بھر پور انداز میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ مشکلات اور آزمائشوں سے نجات پانے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں ہمارے ہاں ایسا کوئی عمل اپنایا نہیں گیا۔ دیر آید درست آید کے مصداق حالات و واقعات کا ادراک کرکے کامیابی کی جانب پہلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کسی کے بھی بس میں نہیں کہ جغرافیہ تبدیل کرسکے البتہ نئے لائحہ عمل اور حکمت عملی سے تاریخ کو ضرور بدلا جاسکتا۔