عمران خان کی گرفتاری کچھ نیا نہیں

486

سابق وزیر اعظم عمران خان کو نیب کے حکم پر رینجرز نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کرلیا ۔ ان کی گرفتاری پر ملک گیر رد عمل بھی ہوا اور عدالت میں اس گرفتاری کے قانونی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سماعت بھی ہو گئی۔ عدالت نے اس بارے میں فیصلہ محفوظ کر لیا ۔ اور رات گئے گرفتاری کو قانونی قرار دے دیاعمران خان کو القادر ٹردٹ ریفرنس میںگرفتار کیا گیا ہے ۔ ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض سے ساز باز کر کے بحریہ ٹائون کے بدلے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کی زمین حاصل کی ہے ۔ الزام یہ ہے کہ بحریہ ٹائون450کنال زمین کی قیمت کاغذات میں93کروڑ ظاہر کرکے سودا کیا جبکہ اس کی قیمت دس گنا تک زیادہ ہے ۔ اس سودے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ خان اور بحریہ ٹائون کے عطیہ کنندہ کے دستخط ہیں ۔ القادر ٹرسٹ کے دو ہی ٹرسٹی ہیں ایک بشریٰ خان اور دوسرے عمران خان ۔ اس مقدمے میں نیب نے کیا تیر مارا اور کیا ثابت کیا اب تک اس کا کوئی مظہر سامنے نہیں آیا ہے ۔ البتہ اب تک نیب تفتیش کے مراحل میں ہے ۔ نیب کے الزامات ہیں کہ یہ زمین غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی ہے اور اس سودے میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے190ملین پائونڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ بھی شامل ہے ۔ اس مقدمے میں عمران خان پر الزام ہے کہ وہ متعدد نوٹسز کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔ عدالت کے ا حاطے سے گرفتاری پر وکلاء اور سیاسی حلقوں نے اعتراض کیا ہے کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری غلط ہے ۔ در اصل یہ ایک چکر ہے جو مسلسل چل رہا ہے ۔ پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے رہنمائوں کے خلاف اپنے اپنے ادوار میں مقدمات بناتے اور گرفتاریاں کرتے ۔ پھر باری تبدیل ہونے پریہ مقدمات خم ہو جاتے یا جھوٹے ثابت ہو جاتے تھے ۔ پھر تبدیلی کے نام پر عمران خان ان دونوں پارٹیوں کے لوٹوں کو ساتھ ملا کر اقتدار میں آ گئے اور ان کے دور میں بھی یہی طریقۂ واردات اختیار کیا گیا ۔ ان کے دور میں شہباز شریف ، حمزہ شہباز ، مریم نواز ، سعد رفیق ، سلمان رفیق ، شاہد خاقان عباسی ، مفتاح اسماعیل اور بہت سے لوگوں کے خلاف مقدمات بنے اسی طرح پیپلز پارٹی کے آصف زرداری ، فریال تالپور ، بلاول زرداری ، خورشید شاہ ، سراج درانی بھی اس کا شکار ہوئے ۔ جس طرح کے مقدمات سرکاری ادارے بناتے ہیں اس کے نتیجے میں تین تین سال سماعتوں کے باوجود کوئی الزام ثابت نہیں ہوپاتا کہ حکومت تبدیل ہو جاتی ہے ۔ یہی ایک بارپھر ہوا ۔ عمران خان کے دور میں ان کے اہم رہنما علیم خان کے مقدمات ختم ہوئے ۔ لیکن حکومت جانے کے بعد ان ہی کے خلاف مقدمات قائم ہونے لگے ۔ عمران خان کو گرفتار کرنے کے حوالے سے کئی مرتبہ ایسامحسوس ہوا کہ انہیں اب گرفتار کر لیا جائے گا ۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔ پی ڈی ایم حکومت نے بھی وہی ہتھکنڈے اختیار کیے جو اس سے قبل پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ الگ الگ اپنے اپنے ادوار میں اختیار کرتے رہے ہیں ۔ عمران خان کی گرفتاری کے لیے بہت سے حیلے کیے گئے پہلے ان کی جان کو خطرات ظاہر کیے گئے پھر یکے بعد دیگرے کئی مقدمات میں ضمانتیں دی گئیں اورجس تیزی سے ضمانتیں دی جا رہی تھیں اسی تیزی سے نئے مقدمات بنائے جاتے رہے، پھر یہ یقینی بنایا گیا کہ پیشی پر کم سے کم لوگ آئیں اور پھر گرفتار کر لیا ۔ عمران خان کو احاطۂ عدالت سے گرفتار کرنے کے بارے میںکہا جا رہا ہے کہ یہ غیر قانونی اور توہین عدالت ہے لیکن اس سے قبل حمزہ شہباز وغیرہ بھی گرفتار ہو چکے ہیں ۔ لیکن سب سے بڑا واقعہ ہو چکا جب حق دو گوادر تحریک کے سربراہ جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکرٹرئی مولانا ہدایت الرحمن کو بھی تو احاطۂ عدالت سے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ ان کے خلاف مقدمات بھی بے تکے تھے ۔ حیرت ہے مولانا ہدایت کی گرفتاری کو تین ماہ سے زیادہ ہونے کے باوجود کسی عدالت نے نوٹس نہیں لیا جبکہ مولانا ہدایت تو عبوری ضمانت کرانے آئے تھے۔ عمران خان پر تو تفتیش اور سماعت پر نہ آنے کا شکوہ تھا ۔ مولانا ہدایت الرحمن تو خود عدالت گئے تھے اور آج تک گرفتار ہیں ۔ پاکستانی سیاست سے سیاستدانوں کی بے دخلی یا اسٹیبلشمنٹ کے دخل اندازی کے الزامات تو موجود ہیں ہی اور عمران خان اس حوالے سے سب سے زیادہ سخت الزامات لگا رہے ہیں ۔ انہوں نے جنرل باجوہ کا نام لے لے کر الزام تراشی کی اپنے اوپر حملے کے حوالے سے بھی ایک جنرل کا نام لیا ۔ لیکن فوج کی جانب سے بار بار تردید کی گئی کہ اب فوج سیاست میں دخل نہیں دے رہی ہے سیاسی جماعتیں اپنے معاملات خود طے کریں ۔ اس ہنگامے میں اچانک پیر کے روز آئی ایس پی آر کے ترجمان نے سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ فوج کے خلاف الزام تراشی سے گریز کیا جائے ۔ اس سے ایک روز قبل سے فوج پر الزامات کا ریکاڑڈ رکھنے والے آصف زرداری اور مسلم لیگ کے رہنما بھی پاک فوج پر الزام تراشی کو برداشت نہ کرنے کے بیانات دے چکے تھے ۔ اخبارات نے آئی ایس پی آر کے ترجمان کے بیان کو عمران خان کو وارننگ قرار دیا اور منگل کے روز عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کر لیا گیا ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس بھی لیا ۔ اعلیٰ حکام کو طلب بھی کیا اور ان کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار بھی کیا ۔ لیکن بعد میں گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا گیا ۔ ہو سکتا ہے عمران خان کو بد عنوانی کے الزام میں سیاست میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دے دیا جائے ۔ یہی طریقۂ کار عمران خان کو لانے کے موقع پر اختیار کیا گیا اور نوازشریف کواسی طرح راستے سے ہٹایا گیا ۔ اب یہی سوال سامنے ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے فوج کی حمایت اور عمران خان کی مذمت میںبیانات اور اس کے بعد آئی ایس پی آر کے ترجمان کا بیان شائع ہوا اور اسی روز گرفتاری ہوئی تو کیا فوج سیاست میں اسی طرح دخیل ہے جیسے پہلے تھی ۔ فوجی ترجمان نے متعلقہ سیاسی رہنمما سے کہا تھاکہ وہ قانونی راستے اختیار کریں ، جھوٹے الزامات لگانا بند کریں ۔ انہوں نے ایک سال سے اس طرز عمل کا ذکر کیا اور کہا کہ فوج کے خلاف اشتعال انگیز پروپیگنڈہ قابل قبول نہیں ۔ یہ سب اشارے عمران خان کی طرف ہیںآئی ایس پی آر سے کچھ روز قبل چیف جسٹس پاکستان نے بھی برہمی کا اظہار کیا تھا کہ سیاستداں اپنے مطلب کے فیصلے چاہتے ہیں ۔ عدلیہ پر تنقید کرتے ہیں ۔ا ن دونوں کا فرمانا بجا ہے اور سیاستدانوں کا کہنا بھی بجا ہے کہ ان کے خلاف قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے لیکن ان میں سے کون یہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ سیاست میں ہرگز ملوث نہیں کیا عدالت کے فیصلے سیاسی بنیادوں پر نہیں ہوتے ۔ کیا ان کے فیصلوں میں اسٹیبلشمنٹ کی خواہش جھلکتی نظر نہیں آتی ۔ عمران خان دور میں عدلیہ کا رویہ کیسا تھاا ور آج کل کیسا ہے ۔ کس کو کب ریلیف دینا ہے اس کا فیصلہ کون کرتا ہے ۔ انتخابات ، دھاندلی ، الیکشن کمیشن کی جانبداری ، خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیاں یہ سب جاری ہیں ،عدلیہ کاکام بھی جاری ہے ۔ اور فوج ملوث نہیں ہے لیکن سارے اشارے بتا رہے ہیں کہ وہ اب بھی پوری طرح دلچسپی لے رہی ہے ۔ اگر سیاستدان دوسروں کے اشارے پر سیاست کریں ۔ عدلیہ کسی اور کے اشارے پر فیصلے کرے اورفوج مداخلت کرے یا اپنی پسند کے لوگ لانا چاہے تو پھر ان میں سے کوئی بھی شکوہ کرنے کا حق نہیں رکھتا ۔ ایسا کریں گے تو رد عمل،جھوٹا، سچا ہر طرح کا آئے گا ۔ شکوہ کیسا؟؟؟