فضائی آلودگی ایک ماحولیاتی خطرہ ہے جو ماحول اور انسانی صحت دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق ہر دس میں سے نو افراد خطرناک سطح تک آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں۔ یہ پوری دنیا کا سب سے اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے، لیکن یورپی یونین سب سے متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے، کیونکہ وہاں دنیا میں فضائی آلودگی سب سے زیادہ ہے۔ یورپی یونین کی ماحولیاتی ایجنسی کی جانب سے فضائی آلودگی سے متعلق رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں یورپ کے 30 ممالک میں فضائی آلودگی کی وجہ سے ہونے والے جانی نقصان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث دائمی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے براعظم یورپ میں ہلاکتوں کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیشتر یورپی ممالک میں فضائی آلودگی کی سطح عالمی ادارئہ صحت کے رہنما خطوط سے اوپر ہے، جب کہ 1990ء کی دہائی میں یورپی یونین کے ممالک میں اموات کی تعداد سالانہ 10 لاکھ تھی۔ رپورٹ میں جانی نقصان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یورپ میں فضائی آلودگی سالانہ 1200بچوں کی اموات کا باعث بنتی ہے۔ رکن ممالک میں اموات کی تعداد 2005ء تک 4 لاکھ 31 ہزار سالانہ پر آئی اور 2020ء تک آئس لینڈ، ناروے، سوئٹزرلینڈ اور ترکیہ میں سالانہ اموات 2 لاکھ 38 ہزار رہیں۔ رپورٹ کے مطابق یورپی یونین 2030ء تک فضائی آلودگی سے اموات 50 فیصد کم کرنے کے ہدف پر گامزن ہے۔ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی دنیا بھر میں سالانہ 70 لاکھ اموات کا باعث بنتی ہے۔
چین میں آلودگی بہت زیادہ ہے جہاں ایک رپورٹ کے مطابق 45 کروڑ لوگ گھروں میں پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سے متاثر ہوتے ہیں جب کہ بھارت میں صورتِ حال تشویش ناک ہے کیونکہ دنیا کے سو آلودہ ترین شہروں میں سے 63 بھارت میں ہیں، وہاں ہر ایک منٹ میں تین انسانی اموات کا تعلق اسی آلودگی سے بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے طبی اثرات بھی بہت شدید ہوتے ہیں۔
چین اور بھارت کے بعد پاکستان فضائی آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات کا شکار ہونے والا ملک ہے، جب کہ ملک بھر میں لاکھوں لوگ ایسی ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں جس میں آلودگی اور خطرناک ذرات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے نتیجے میں ہر سال کم از کم ایک لاکھ 28 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
فضائی آلودگی کی وجوہات
فضائی آلودگی ہوا میں موجود وہ مادے یا ذرات ہوتے ہیں، جو کہ انسانی سرگرمیوں کی بدولت فضا کا حصہ بنتے ہیں، یا پھر قدرتی طور پر یہ انسانی صحت اور ماحول دونوں کو نقصان پہنچانے کا باعث ہوتے ہیں۔ فضائی آلودگی گیسوں کی زیادتی، زہریلی گیسوں، تابکار شعاعوں، کیمیائی مادوں، ٹھوس ذرات، مائع، گرد و غبار اور دھویں وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ شہر کی سڑکوں سے زیادہ فضائی آلودگی کمرئہ کلاس اور نرسریوں میں پائی جاتی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق پرائمری اسکول میں باہر کے مقابلے میں زیادہ آلودگی ہے، کیوںکہ یہ آلودگی باہر نہیں نکلتی اور کمرے کے اندر ہی رہتی ہے۔ سڑکوں پر گاڑیاں جو دھواں چھوڑتی ہیں ان سے یہ آلودگی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں جمع ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کیونکہ بچوں کے پھیپھڑے ابھی اتنی زیادہ نشوونما نہیں پائے ہوتے اس لیے انہیں اس آلودگی سے زیادہ خطرہ ہے۔
اسی طرح یہ باتیں بھی رپورٹ ہوئی ہیں کہ ایئر فریشنر، صابن، دیواروں اور گاڑیوں وغیر ہ کو رنگنے والے پینٹ، گلو، ٹوائلٹ کلینرز، قالین اور پرفیوم فضائی آلودگی میں بڑا کردارادا کررہے ہیں، کیونکہ ان میں طرح طرح کے کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں اور ماہرین کے مطابق جب ان مختلف اشیاءپر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں تو انتہائی منفی ردعمل سامنے آتا ہے جو انسانی صحت اور ماحولیاتی درستی دونو ںکے لیے بے حد خراب ہے۔
فضائی آلودگی کے صحت پر اثرات
فضائی آلودگی کے صحت پر بہت سے اثرات ہوتے ہیں، سانس کے معمولی مسائل سے لے کر سنگین دائمی بیماریوں تک پر اثر پڑسکتا ہے، خاص طور پر فضائی آلودگی کا تعلق سانس کی بیماریوں جیسے دمہ اور برونکائٹس کی ایک حد سے ہے۔اس کا تعلق دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ کینسر سے بھی بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی بچوں، بوڑھوں اور پہلے سے بیماریوں میں مبتلا افراد پر خاص طور پر شدید اثر ڈال سکتی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے میلمن اسکول آف پبلک ہیلتھ نےاپنی تحقیق میں کہا ہے کہ ٹریفک کا دھواں ہڈیوں کو کمزور کرکے فریکچر اور گٹھیا کی وجہ بن رہا ہے۔سائنسداں اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی پیراتھائرائیڈ ہارمون پر اثرانداز ہوتی ہے جو کیلشیم کی پیداوار کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس طرح کیلشیم کم بنتا ہے، ہڈیاں بھربھری ہوکر کمزور ہوتی رہتی ہیں، اس طرح مریض بار بار فریکچرکا شکار ہوتا ہے اور اسے اسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے۔
اب ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فضائی آلودگی سے مردوں میں بانجھ پن کا خطرہ بڑھتا ہے۔ہنگری کی یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فضائی آلودگی کے باعث اسپرم کا معیار متاثر ہوتا ہے جبکہ بانجھ پن کا خطرہ بڑھتا ہے۔نتائج سے معلوم ہوا کہ فضائی آلودگی یا کیڑے مار ادویہ کے نتیجے میں اسپرم کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق پانچ سال کی عمر سے پہلے کسی بچے کو جتنی آلودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے دماغ کی ساخت اتنی ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔محققین نے پایا کہ زندگی کے پہلے دو برسوں کے دوران ہوا میں موجود ذرات، دھول، گندگی، دھواں یا آلودگی پھیلانے والے مائعات کے ذرات کا جتنا زیادہ سامنا ہو، پوٹامین کا حجم اتنا ہی زیادہ ہوگا۔آئی ایس گلوبل محقق این کلیئر بنٹر، جو اس مطالعے کی شریک مصنف بھی ہیں، نے کہا:ایک بڑے پوٹامین کا تعلق بعض نفسیاتی امراض (شیزوفرینیا، آٹزم، اور آبسیسو کمپلسیو ڈس آرڈر) کے ساتھ ہے۔ان کا کہنا تھاکہ نوزائیدہ بچے کا دماغ خاص طور پر نہ صرف دورانِ حمل، بلکہ بچپن کے دوران بھی فضائی آلودگی کے اثرات کے لیے حساس ہے۔ماضی میں ایک تحقیق یہ بھی سامنے آچکی ہے کہ موجودہ دور میں پیدا ہونے والے بچوں کی زندگی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اوسطاً 20 ماہ کم ہو سکتی ہے اور اس کے زیادہ اثرات جنوبی ایشیا میں ہوں گے۔ مطالعےسے یہ معلوم ہوتاہےکہ بچے بڑی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے سانس لیتے ہیں، لہٰذا ان کے پھیپھڑوں کے متاثر ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ چونکا دینے والی صورتِ حال اور اعداد و شمار ہر کچھ عرصے بعد ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں جو فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت پر توجہ دلاتے ہیں۔ انسانی صحت اور ماحول کے تحفظ کے لیے فضائی آلودگی کو کم کرنا ضروری ہے۔ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے کچھ حل درج ذیل ہیں:
-1 گاڑیوں سے دھویں کے اخراج کے معیارات کو بہتر بنانا:
حکومتیں گاڑیوں سے دھویں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے پالیسیاں نافذ کرسکتی ہیں، جیسے کہ ایندھن کی کارکردگی کے سخت معیارات قائم کرنا، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات کی پیشکش، اور زیادہ موثر عوامی نقل و حمل کا نظام تیار کرنا۔
2- صنعتی آلودگی کو کم کرنا:
حکومتیں صنعتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ضوابط نافذ کرسکتی ہیں، جیسے کہ صنعتوں کو توانائی کے صاف ستھرے ذرائع اور ٹیکنالوجیز استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
3- درخت لگانا:
درخت فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جس سے فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ درخت لگانے سے مٹی کے کٹاؤ کو کم کرنے اور جنگلی حیات کو رہائش فراہم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ یورپی یونین سے متعلق رپورٹ میں مختصر مدت میں بچوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اسکولوں کے آس پاس سبزہ زار اور گرین زون کو وسعت دینے کا عملی حل تجویز کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس حل سے ہوا کے معیار میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
4- گھر کے اندر بھی پودے لگانا:
گھر کے اندر بھی پودے ہوا کے مضرصحت اجزا کو صاف کرنے میں مدد دے سکتے ہیں اور یہ گھر کے اندر کی فضا میں آلودگی کو کم کرتے ہیں۔ آپ گھر کے اندر منی پلانٹ، ڈریگن ٹری، اسنیک پلانٹ لگا سکتے ہیں۔ یہ تمام درخت مضرِ صحت کیمیکلز کو فضا سے ختم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
5- توانائی کی کھپت کو کم کرنا:
افراد توانائی کے موثر آلات استعمال کرکے، عوامی نقل و حمل کا استعمال کرتے ہوئے، اور استعمال میں نہ ہونے پر الیکٹرانک آلات کو ان پلگ کرکے توانائی کی کھپت کو کم کرسکتے ہیں۔
6- عوام کو شعور و تعلیم دینا:
عوام کو فضائی آلودگی سے منسلک صحت کے خطرات اور اخراج کو کم کرنے کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا افراد کو ان کے اخراج کو کم کرنے کی ترغیب دینے میں مدد کرسکتا ہے۔
آخر میں بس اتنا ہی کہنا ہے کہ ہم سب کو مل کر فضائی آلودگی ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ مستقبل میں مزید خطرناک صورتِ حال کا سامنا ہوگا۔