کوئی شخص اگر گٹر سے دودھ اُبلنے کی توقع کرلے اور اُس کی امید بر نہ آئے توگٹر قصوروار کہلائے گا یا توقع کرنے والے ہی کو احمق سمجھاجائے گا۔ یہ میرا ایک سوال ہے جو پاکستانی قوم کے سامنے رکھتا ہُوں۔ پاکستان کو تشکیل دیے ہوئے پچھتّر برس بِیت چکے ہیں لیکن فلاحی ملک تو بڑی دُور کی بات ہے‘ ہم نہ تو ایک صنعتی ملک بن سکے اور نہ ہمارا ملک زرعی ملک ہی کہلا سکا۔ بھوک‘ بے روزگاری اور بداخلاقی کی طرف ہمارے قدم بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
سیدنا عمرؓ نے اپنے دورِ حکومت میں حکم صادر کیا کہ بچّہ تولّد ہوتے ہی اُس کا وظیفہ مقرّر کردیا جائے اور ایک عرصہ دراز تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اُس زمانے میں نہ تو آئی ایم ایف کا کوئی وجود تھا اور نہ ورلڈ بینک ہی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہودیوں اور نصرانیوں کا کوئی طبقہ ایسا بھی نہ تھا جو اِسلام اور مسلمانوں کو پھلنے پھولنے میں مدد فراہم کر رہا تھا۔ یہ ضرور ہے کہ کاروباری عناصر سے ٹیکس کی وصولی کی جاتی تھی اور ذمیوں سے جزیہ لینے کا رواج تھا۔ کاروباری عناصر سے ٹیکس کی وصولیابی تو آج بھی کی جاتی ہے لیکن حکمران طبقہ اِس نظام سے اُس وقت تک مستثنیٰ نظر آتا ہے جب تک زمامِ کار اُس کے ہاتھوں میں رہتا ہے۔ حکومت کرنے کے اختیارات سے محروم ہونے کے بعد نئی حکومت اُس کے پیچھے بیک وقت وقت چوہے بھی چھوڑ دیتی ہے بلیّاں بھی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وصول کیے جانے والی ٹیکس کی رقوم کہاں اور کس طرح خرچ کی جاتی ہیں‘ کس کی جیب سے کس کی جیب میں منتقل ہوتی ہے‘ اِس بارے میں کوئی تفصیل دیکھنے کو کبھی نہیں ملتی ہے۔ اِس حوالے سے سال بہ سال بجٹ کا باجا سننے کو ضرور ملتا ہے جو سمع خراش ہونے کے ساتھ ساتھ دلخراش بھی ہوتا ہے۔
پاکستان میں مسلم لیگیوں کے پہلوان اکھاڑ پچھاڑ کا کھیل جب ختم کرلیتے ہیں تب پیسے سمیٹنے کے لیے فوج سامنے آجاتی ہے پھر فوج کے بعد پیپلز پارٹی اپنے کرتب کی نیرنگیاں بکھیرنے کے لیے چلی آتی ہے پھر فوج پاکستان پاکستان کی راگ سناکر پچھلی حکومت کی پیدا کردہ کدورتیں دُور کرنے کا حیلہ کرکے اپنا آپ منوانے میں مشغول ہوجاتی ہے۔ یوں پاکستانی قوم اتحادِ ثلاثہ کے بھنور میں گزشتہ پچھتر برس سے غوطہ زن ہے۔ یعنی مسلم لیگ پھر فوج پھر پیپلز پارٹی … پھر فوج دس سال اُس کے بعد پانچ سال کے لیے مسلم لیگ۔ یہ عجیب تماشا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ہے۔
وہ ممالک جن کی کرنسیوں کی قدر ہماری کرنسی کے مقابلے میں ازحد کم تر تھیں آج ان کی قیمت بہت بڑھ چکی ہیں اور پاکستانی کرنسی مستقل گراوٹ کا شکار ہے۔ ۹۴۷ء میں پاکستانی روپیہ‘ جرمن مارک اور فرانس کی کرنسی یکساں حیثیت کی حامل تھیں جبکہ انڈونیشیا‘ ملائشیا اور جاپان کی کرنسیوں کا پاکستان کی کرنسی سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ آج پاکستان کے تین سو روپے کے عوض ایک امریکی ڈالر دستیاب ہوتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کیا جس خطے میں پاکستان قائم ہے آیا وہ سطح زمین ہی خراب ہے اور جیسے بنجر زمین میں ڈالی گئی بیج سے خراب پودے اُگتے ہیں اِسی طرح یہاں کی سر زمین پر جنم لینے والے آدمی بھی خراب خیال و خصلت کے حامل اور بودے ہوتے ہیں یا اِس سرزمین پر محیط آسمان کثیف آب وہوا اور غلیظ ماحول کی پیدائش پر معمور ہے اور اُس کثیف آب وہوا کو ہم اپنی خوراک اور سانسوں کے ذریعے اپنے بدن کے اندر اتارتے رہنے کے باعث ہماری سوچ سمجھ میں خلل پیدا ہوتا چلا جارہا ہے۔ اگر فی الواقعی زمین اور آسمان کے خراب ہونے کی بنا پر ہی ہمارا دل و دماغ ہمارے قابو میں نہیں ہے اور عقل وخرد سے ہم عاری ہوتے چلے جارہے ہیں تو یہ بھی دریافت کرنا ضروری ہوگا کہ خراب آسمان کی چھت کہاں تک جاکر ختم ہوتی ہے اور خراب زمین کتنے رقبے کو اِحاطہ کیے ہوئے ہے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے تب شاید یہ ممکن ہو کہ ہم اپنے نومولود کو یہاں سے منتقل کرنے کی کوئی سبیل نکال لیں اور ہماری آئندہ کی نسل برباد ہونے سے بچ جائے۔
قارئین یہ محض تفریح کی باتیں تھیں اِس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ نہ تو ہمارے سروں پر چھایا ہُوا آسمان ہی خراب ہے اور نہ جس زمین پر ہم مقیم ہیں اُسی میں کوئی خرابی ہے۔ خرابی در حقیقت ہماری اپنی ذات و صفات میں ہے۔ اِسی آسمان و زمین پر امریکا‘ برطانیہ اور آسٹریلیا کے علاوہ انڈونیشیا اور ملائشیا کی سلطنتیں بھی قائم ہیں اور بتدریج ترقی کی منزلیں طے کرتی چلی جارہی ہیں۔ عرب کے ممالک میں رہنے والے جو کبھی ریگستان کی خاک پھانکتے نظر آتے تھے‘ آج وہ طرح طرح کے پھل اور میوے کھاتے ہیں اور اُن کا ملک نخلستان اور گلستان بن چکا ہے۔ دراصل ہم اپنے رہنماؤں کے انتخاب میں ہی مخلص نہیں ہیں۔