اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دوحا افغان کانفرنس

822

اقوام متحدہ کے زیراہتمام قطر (دوحا) میں افغانستان کے حوالے سے ایک اہم اجلاس اس پس منظر کے ساتھ منعقد کیا گیا ہے کہ اس میں افغانستان میں برسراقتدار امارت اسلامی افغانستان کے کسی نمائندے کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ واضح رہے کہ یہ اجلاس جسے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے طلب کیا تھا میں امریکا، چین اور روس کے نمائندوں سمیت بڑے یورپی امدادی اداروں کے نمائندگان اور افغانستان کے پاکستان جیسے اہم ہمسایہ ممالک کے علاوہ تقریباً 25 ممالک اور گروپوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس سے قبل اقوام متحدہ کے سربراہ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس اجلاس کا مقصد خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، جامع طرز حکمرانی، انسداد دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے بارے میں عالمی برادری کے اندر طالبان کے ساتھ رابطے میں رہنے کے بارے میں مشترکہ کوششوں کو فروغ دینا تھا۔ یہ اجلا س ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا ہے جب گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی کے فیصلے کی مذمت کرچکی ہے جسے طالبان حکومت نے مسترد کردیا تھا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ تقریباً پونے دو سال ہونے کے باوجود کسی بھی ملک نے افغان انتظامیہ کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم نہیں کیے ہیں۔ اقوام متحدہ اور واشنگٹن کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنا اس اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ دراصل گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل آمنہ محمد کے اس تبصرے کہ دوحا اجلاس طالبان حکومت کو اصولی طور پر تسلیم کرنے کا باعث بن سکتا ہے کہ تناظر میں بعض مبصرین کا خیال تھا کہ شاید اس اجلاس میں طالبان حکومت کی منظوری کے حوالے سے بھی کوئی پیش رفت ہوسکتی ہے لیکن اب اقوام متحدہ کے ترجمان نے اس حوالے سے دوٹوک بیان دے کر ایسے کسی امکان کو رد کردیا ہے جسے یقینا کسی بھی لحاظ سے حوصلہ افزاء قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ دوحا اجلاس میں امارت اسلامی افغانستان کی عبوری حکومت کو مدعو نہ کرنے پر کابل کی طرف سے غصے کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ افغانستان سے متعلق اجلاسوں میں کئی چیزیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ وہاں افغانستان کا نمائندہ ہونا چاہیے تاکہ ہم اپنا موقف پیش کریں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی پوزیشن افغانستان کے ساتھ تعمیری اور تعاون پر مبنی ہونی چاہیے۔
مبصرین کا دوحا اجلاس کے متعلق کہنا ہے کہ اس اجلاس سے بین الاقوامی برادری کی افغانستان کے بحران سے نمٹنے میں دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے جسے اقوام متحدہ اپنا سب سے بڑا انسانی بحران سمجھتا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کے شرکاء نے افغانستان کے اندر جاری انسانی بحران سے نمٹنے کے طریقوں اور ذرائع پر توجہ مرکوز رکھی اور سب سے اہم موجودہ بحران کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔ سفارتی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ توقع تھی کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس افغانستان میں عالمی ادارے کے اہم امدادی آپریشن کے جائزے کے بارے میں اپ ڈیٹ دیں گے، جس کا حکم اپریل میں افغانستان میں موجودہ حکومت کے اہلکاروں کی جانب سے افغان خواتین کو اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ کام کرنے سے روکنے کے بعد دیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اسے 38 ملین کی آبادی والے ملک میں اپنے بڑے آپریشن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے ایک ’’خوفناک انتخاب‘‘ کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کو رکن ممالک کی مشاورت سے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا اس آپریشن کوجاری رکھنا ہے یا پھر اس سے دستبردار ہونا ہے کیونکہ اسے دونوں صورتوں میں شدید دبائو اور مشکلات کا سامنا ہے۔
آزاد ذرائع کا دوحا کانفرنس کے متعلق کہنا ہے کہ اقوام متحدہ نے طالبان کو اس کانفرنس میں مدعو نہ کر کے کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں کیا ہے کیونکہ وہ ایک زمینی حقیقت ہیں اور ان کی شرکت کے بغیر یہ اجلاس غیر موثر اور غیر نتیجہ خیز ہو گا۔ طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے طالبان کو دوحا مذاکرات میں مدعو نہ کرنے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے افغان حکومت کی شرکت کے بغیر افغانستان کے بارے میں کوئی بھی ملاقات بے سود اور غیر موثر ہوگی۔ اس اجلا س کی ایک اور اہمیت اگر ایک جانب اس میں طالبان کو مدعونہ کیا جانا تھا تو دوسری جانب طالبان کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے دوحا معاہدے کے بعد برسراقتدار آنے سے لیکر اب تک نہ صرف دوحا معاہدے کی تمام شقوں کی مکمل پابندی کی ہے بلکہ انہوں نے افغانستان کو داعش جیسے مسلح گروہوں کی پناہ گاہ نہ بننے دینے کے وعدے کا بھی پاس رکھا ہے۔
طالبان حکومت کے حوالے سے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری بالخصوص مغربی ممالک خواتین کی تعلیم اور روزگار سے متعلق جو منفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں اگر یہ قوتیں اس صورتحال کا زمینی حقائق اور طالبان کے نقطہ نظر سے جائزہ لیں تو انہیں یہ بات سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی کہ بقول طالبان وہ نہ تو بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں اور نہ ہی ان کو روزگار کے مواقع سے محروم کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ چونکہ ان دونوں کاموں کے لیے اسلامی تعلیمات اور پختون روایات کے مطابق خواتین کو الگ اور باپردہ ماحول فراہم کرنے کے متمنی ہیں اور وہ اس کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لا رہے ہیں اس لیے جوں ہی یہ کم از کم مطلوبہ سہولتیں دستیاب ہو جائیں گی تو وہ نہ صرف بچیوں کے لیے تعلیم کے دروازے کھول دیں گے بلکہ الگ اور باپردہ ماحول میں خواتین کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔