سید تنظیم واسطی 29 اپریل ہفتے کی شب لندن میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے، گزشتہ دنوں فاران کلب انٹرنیشنل کے سیکرٹری ندیم اقبال ایڈوکیٹ لندن سے لوٹے، تو انہوں نے تنظیم واسطی صاحب کی بیماری کی خبر سنائی، جن سے ان کی ملاقات ہوئی، وہ پروفیسر خورشید احمد سے بھی ملاقات کے خواہش مند تھے۔ لیکن بیماری کے سبب ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔ برطانیہ میں دین اسلام کی تبلیغ اور رفاہی کاموں اور دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاً افغانستان، کشمیر، بوسنیا، فلسطین، سوڈان، چیچنیا، برما، کے مسلمانوں کے لیے ان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ سید محمد تنظیم واسطی گزشتہ چند برسوں سے پیرانہ سالی کے سبب گھر سے بہت کم باہر نکلا کرتے تھے۔ وہ ساری عمر دنیا بھر میں ستم رسیدہ مسلمانوں کی امداد کے لیے کوشاں رہے۔ ان کی عمر کا بہت بڑا حصہ سفر میں گزرا، دنیا بھر کے مسلمان لیڈروں، اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں اہم شخصیات، اسکالرز، صحافیوں، علماء سے ان کے خصوصی روابط تھے۔ تنظیم واسطی سے میرا پہلا تعارف مدیر تکبیر محمد صلاح الدین نے 1984 میں کرایا تھا، انہوں نے مجھے ہفت روزہ تکبیر کے لیے واسطی صاحب کے انٹرویو کا اسائمنٹ دیا، نیو ایم اے جناح روڈ کے ایک فلیٹ میں میری ملاقات تنظیم واسطی سے ہوئی یہ ان کی بہن کا فلیٹ تھا، جہاں وہ قیام پزیر تھے۔ بعد میں وقتاً فوقتا ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، وہ جمعیت الفلاح اور فاران کلب سے ایک تعلق خاص رکھتے تھے، جب بھی پاکستان آتے، ان دو اداروں میں ان کی خصوصی بیٹھک ہوتی۔ وہ ایک شفیق بزرگ کی طرح ملتے، اور ہمیشہ دنیا میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی مشکلات کے حل کے لیے سرگرم رہتے۔
وہ مارچ 2017 میں کراچی آئے، تو ندیم اقبال ایڈوکیٹ نے ہمیں یہ فریضہ سونپا کہ سید تنظیم واسطی کی یاد داشتوں کو قلم بند کیا جائے، یوں ہماری تنظیم واسطی سے طویل نشستیں ہوئیں، اور ان سے سوال جواب کی صورت میں کئی گھنٹوں کی ریکارڈنگ کی گئی۔ بدقسمتی سے یہ کام تنظیم واسطی کی زندگی میں مکمل نہ ہوسکا، ان شا اللہ بہت جلد یہ قرض اور فرض ادا کرنے کی کوشش ہے۔ 2022 میں فاران کلب کراچی اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے پروفیسر خورشید کی کتابوں کے سلسلے ’’ارمغان خورشید‘‘ کی تقریب رونمائی کا انعقا د کیا۔ پروفیسر خورشید احمد کا یوم پیدائش 23مارچ ہے، اور یہ تقریب بھی اسی دن منعقد ہوئی، بیماری کے باوجود سید تنظیم واسطی نے اس تقریب سے آن لائن خطاب کیا، پروفیسر خورشید سے ان کا ایک خصوصی تعلق خاطر تھا۔ سید تنظیم واسطی نے یوکے اسلامک مشن کے پہلے سیکرٹری جنرل، نائب صدر، سینئر نائب صدر، مختلف کمیٹیوں کے صدر اور مسلم ایڈ کے ٹرسٹی اور بہت سارے اداروں کی داغ بیل ڈالی اور کی سرپرستی کی۔ ان کی زندگی کا مقصد، دین کی سربلندی رہا۔ وہ اسلام کی سربلندی کے لیے زندگی بھر مصروف رہے۔ سید تنظیم واسطی زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگئے تھے، وہ جمعیت کے مختلف علاقوں کے علاوہ کراچی یونیورسٹی میں بھی ناظم رہے۔ برطانیہ آکر وہ یوکے اسلامک مشن کے پلیٹ فارم سے سرگرم رہے اور مسلمانوں کو متحد کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، انہوں نے یوکے اسلامک مشن کے جنرل سیکرٹری کے طور پر بہت بڑی سالانہ کانفرنسوں کا اہتمام کیا جس میں برطانیہ بھر سے مسلمانوں کی بڑی تعداد شرکت کیا کرتی تھی۔ انہوں نے شاہ فیصل اور سید ابواعلیٰ مودودی کے اعزاز میں برطانیہ میں ایسے شاندار استقبالیہ اور کانفرنس منعقد کیں، جس کی کوریج پوری دنیا کے میڈیا نے کی۔ یوکے اسلامک مشن کی ذمے داریوں سے فراغت پانے کے بعد سید تنظیم واسطی نے مسلم ایڈ کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی ذمے داریاں ادا کیں۔ ان کا پورا گھرانہ تحریک اسلامی سے جڑا ہوا ہے، ان دنوں بھی ان کے گھر پر خواتین کے لیے تفہیم القرآن کا ہفتہ وار درس ہوتا ہے۔
یو کے اسلامک مشن کی تاریخ تنظیم واسطی کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی۔ اپنے برطانیہ جانے کے فیصلے اور یو کے اسلامک مشن کے قیام کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’’1964 میں ایوب خان کی آمریت پورے عروج پر تھی۔ پورے ملک میں جماعت اسلامی پر سخت ابتلا کا دور تھا۔ جماعت اسلامی کی شوریٰ کے اراکین جیلوں میں بند تھے۔ کراچی میں چودھری غلام محمد، پروفیسر خورشید احمد سینٹرل جیل میں تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں برطانیہ جارہا ہوں تو چودھری غلام محمد نے پیغام بھیجا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں۔ میں بھی ان سے ملاقات کا متمنی تھا۔ میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ میں برطانیہ میں کس طرح تحریک کا کام کرسکتا ہوں۔ برطانیہ روانگی سے چند دن پہلے میری چودھری غلام محمد سے جیل میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں خورشید صاحب (پروفیسر خورشید احمد) اور چودھری غلام محمد دونوں موجود تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ برطانیہ میں لوگوں نے جماعت اسلامی کے نام سے کام شروع کردیا ہے۔ لیکن یہاں جماعت کا فیصلہ ہے کہ بیرون ملک جماعت اسلامی کا نام استعمال نہ کیا جائے۔ برصغیر سے باہر جماعت اسلامی کا نام استعمال نہ کیا جائے کوئی اور نام رکھ لیا جائے۔ انہوں نے مجھے برطانیہ میں موجود احباب کے نام ایک خط دیا۔ میں جون 1964 کی چار تاریخ کو لندن پہنچا۔ دوسرے دن میں 148 لیور پول پہنچا، ان لوگوں سے ملا۔ وہاں Fosis کی میٹنگ ہورہی تھی۔ میں بھی اس میٹنگ میں شریک ہوا۔ میں نے چودھری صاحب کا خط بیرسٹر قربان علی کو دیا۔ انہیں میں نے بتایا کہ میں جماعت اسلامی کا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اراکین کی میٹنگ بلائی۔ تین دن میٹنگ چلتی رہی۔ اس میں یہ طے ہوا کہ جماعت اسلامی کا نام ختم کرکے پرانا نام ’’UK Islamic Mission‘‘ رکھا جائے جو 1962ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ بنگلا بھائیوں نے سرکل قائم کیا تھا اس کے بعد الیکشن ہوئے۔ بیرسٹر قربان علی کو صدر چنا گیا اور مجھے جنرل سیکرٹری، یہ وہ وقت تھا جب قربان علی اپنی تعلیم ختم کرنے والے تھے اور بیرسٹر بن کر واپس مشرقی پاکستان جانے والے تھے۔ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی کرتے تھے۔ بہت سے لوگ بیرسٹر قربان کے مکان 148 لیور پول روڈ میں رہتے تھے۔ وہ یہاں خود بھی قیام پزیر تھے۔ ان کے علاوہ عبدالسلام صاحب تھے۔ کچھ بنگلا ساتھی تھے۔ سلیم صدیقی، مظفر علی بیگ، رشید اور محمد خان کیانی اور شاید بعد میں عبدالرشید صدیقی یہاں رہے تھے۔ یہ تمام افراد اس وقت بھی مقیم تھے۔ میرے آنے سے پہلے مولانا ظفر اسد انصاری، پروفیسر خورشید احمد، چودھری غلام محمد سے ملا تھا۔
اس کے علاوہ حسن اطہر اور خواجہ محبوب الٰہی (اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے سابق ناظم اعلی اور ممتاز صنعت کار جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے) سے ملا حسن اطہر سے پہلے یہاں کے حالات معلوم کیے۔ اسلامک مشن کلچرل سینٹر میں تحریکی لوگوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ وہ اس کے رکن تھے۔ حسن اطہر صاحب ان دنوں تازہ تازہ برطانیہ میں آئے تھے۔ انہوں نے یہاں کے حالات بتائے اور مشکلات بھی بیان کیں۔ میں نے جب چودھری صاحب اور خورشید صاحب سے جیل میں ملاقات کی تو انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ بیرون ملک تحریک کا کام کیسے کرنا ہے۔ مثلاً جماعت اسلامی کا ڈائریکٹ کنٹرول نہیں ہوگا۔ تاکہ اگر باہر کوئی ایسا کام ہو جو جماعت نہیں کرنا چاہتی تو اس کا نقصان جماعت کو نہ پہنچے۔ اس کے علاوہ اخوان کے ساتھ جماعت کے روابط تھے۔ ان میں طے ہوا تھا کہ برصغیر (ہندوستان اور پاکستان) میں جماعت اسلامی کے نام سے کام کیا جائے گا۔ عرب ممالک میں اخوان کے نام سے کام کریں گے تاکہ اپنے اپنے ایریا میں کام کیا جائے۔ اسی لیے جماعت اسلامی کا نام استعمال نہ کیا جائے۔ (جاری ہے)