ہمارے ہاں جب سے لیکس کا سلسلہ شروع ہوا ہے، ہر فریق اس کی اپنی من مانی تعبیر کرتا ہے۔ اگر یہ لیکس اس کے فریقِ مخالف کی ہیں تو جشن مناتے ہیں اور اگر یہ اُ ن کی اپنی یا اپنی جماعت کے کسی رہنما یا وابستگان میں سے کسی کی ہے، تو اچانک انہیں اخلاقی اور قانونی پہلو یاد آجاتے ہیں کہ یہ کام غیر قانونی اور غیر اَخلاقی ہے، یعنی ان کا نقطۂ نظر یہ ہوتا ہے کہ اصل متن سے صرفِ نظر کرو اور ’’مٹی پاؤ‘‘، یہ شِعار درست نہیں ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے: کسی نے کسی کو قتل کیا ہو، تو اس بحث میں پڑ جائیں کہ جس ہتھیار سے قتل کیا گیا ہے، وہ قانونی تھا یا غیر قانونی، لائسنس یافتہ تھا یا بلالائسنس، ان معاملات کی تحقیق ضرور کریں، اگر قانون میں اس کی کوئی سزا ہے تو وہ بھی ضرور دیں، لیکن اصل جرم جو قتل ہے، اس کی تحقیق اور اس کے ذمے دار کو سزا دینا سب پر مقدم ہے۔
قانونی اور اخلاقی موشگافیوں کی بحث میں پڑ کر اصل جرم سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ پس اسی طرح اِن لیکس کا جو اصل متن ہے، اس کا فرانزک آڈٹ ہونا، یہ طے کرنا کہ اصلی ہے یا جعلی، اس کا تعین لازمی ہے اور اگر یہ اصلی قرار پائیں تو جن شخصیات کی ہیں یا جن سے متعلق ہیں، ان کو ضرور قانون کی عدالت میں طلب کیا جانا چاہیے، خواہ وہ کتنے ہی اعلیٰ مناصب پر فائز ہوں، ان میں عدالت ِ عظمیٰ اور عدالت ِ عالیہ کے معزز جج صاحبان بھی شامل ہیں۔ عدل کے منصب پر فائز شخصیات کو تو فوراً اپنے منصب سے علٰیحدہ ہو کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے تاکہ اگر ان کا دامن اُجلا ہے تو وقار و اعتبار کے ساتھ منصب کو جاری رکھیں اور اگر ان کا دامن داغ دار ہے تو پھر نتائج کا سامنا کریں، کیونکہ بعض آڈیو لیکس تو اتنی واضح ہیں کہ کسی تاویل یا توجیہ کے پردے کے پیچھے چھپنا آسان نہیں ہے۔
امریکا میں سابقہ وِکی لیکس اور حالیہ ڈسکارڈ لیکس کی باقاعدہ تحقیقات ہو رہی ہیں، وِکی لیکس کے بانی جولین آسانج آج تک امریکا کو مطلوب ہے، انہوں نے اَخلاقی اور قانونی موشگافیوں کے حیلوں کے نیچے اس ملبے کو دفن نہیں کیا، بلکہ اس کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب محمد امیر بھٹی کے داماد جنابِ علی افضل ساہی پر کچھ الزامات ہیں کہ اپنے داماد کی
وجہ سے چیف جسٹس کی عدالت کا جھکاؤ ایک پارٹی کی طرف ہے۔ جنابِ علی افضل ساہی ایک اینکر پرسن اور ویلاگر جنابِ منصور علی خان کے ڈجیٹل چینل پر آئے اور اپنا مؤقف پیش کیا، انہوں نے اپنا علمی پس منظر بھی بتایا کہ وہ لمز یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں، ان کا انداز پُراعتماد تھا، اپنی ذات کی حد تک وہ اپنے کردار کو صاف و شفاف سمجھ رہے تھے اور بیان کررہے تھے، چنانچہ انہوں نے بتایا: صوبائی وزیر بننے کے بعد انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر لاہور ہائی کورٹ کے عالی مرتبت جج صاحبان کی دعوت کی اور چھبیس جج صاحبان ان کی دعوت میں شریک ہوئے، کیا وہ ایک بھی ایسی مثال بتا سکتے ہیں کہ کسی وزیر کی سماجی نہیں بلکہ نجی دعوت پرکسی ہائی کورٹ کے چھبیس جج صاحبان شریک ہوئے ہوں، ہماری دانست میں تو شاید دنیا میں اس کی مثال نہ ملے۔ سماجی تقریب سے مراد بیٹے یا بیٹی یا بھائی یا بہن کی رُخصتی یا ولیمے کی تقریب ہو سکتی ہے، جبکہ نجی تقریب گھریلو دعوت ہوتی ہے، انہوں نے مزید کہا: ’’میں نے اگر صوبائی حکومت سے اربوں روپے لیے ہیں تو اپنے حلقۂ انتخاب پر خرچ کیے ہیں‘‘، یہ دعوائے پارسائی تب درست ہوتا جب پنجاب اسمبلی کے ہر حلقۂ انتخاب کے لیے اتنا ہی ترقیاتی بجٹ جاری ہوا ہوتا۔ پس کسی کا اپنی پاکیزگیِ کردارکا دعویٰ کرنا اس کی برأت کی دلیل نہیں بن سکتا، اس کا فیصلہ دوسروں کو کرنا
ہوتا ہے اور مسلّمہ معیارات پر کرنا ہوتا ہے، اگر ہر ایک اپنی مارکنگ خود کرے تو سب کے سب اول پوزیشن پر کامیاب ہوں گے، دوسری پوزیشن کسی کی نہیں آئے گی، قرآنِ کریم میں ہے: ’’پس تم اپنی پارسائی کا دعویٰ نہ کرو، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، کون پارسا ہے‘‘، (النجم: 32) ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنی پارسائی بیان کرتے ہیں، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہے پارسا بناتا ہے‘‘، (النسآء: 49) ’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کسی کا بھی (ظاہرو) باطن کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا، لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے اس کے باطن کو پاک صاف فرما دیتا ہے‘‘۔ (النور: 21)
اسی لیے سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا تھا: ’’قبل اس کے کہ تمہیں آخری عدالت میں حساب دینے کے لیے پیش ہونا پڑے، اپنا حساب خود کرلو‘‘، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بلکہ انسان اپنے نفس (کے خیر و شر) پرخوب آگاہ ہے، خواہ وہ (اپنی بداعمالیوں کے جواز کے لیے) کتنے ہی عذر پیش کرتا رہے‘‘۔ (القیامۃ: 15) آج کل ہم دیکھ رہے ہیں، ہر پارٹی نے اپنے ترجمان رکھے ہوئے ہیں، اس بات سے قطعِ نظر کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، آنکھیں اور دل و دماغ کے دریچے بند کرکے اپنے ممدوح کا دفاع کرتے رہتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہونے کا کوئی تصور کسی کے دل و دماغ میں نہیں ہے، اپنی خواہشات اور اپنے رہنماؤں کو معبود کا درجہ دے رکھا ہے اور یہی روش ساری خرابیوں کا بنیادی سبب ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پس کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا! جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اور اللہ نے اسے علم کے باوجود گمراہی میں چھوڑ دیا اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، پس
اللہ تعالیٰ کے (گمراہی میں چھوڑ دینے) بعد اسے کون ہدایت دے گا، تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے‘‘۔ (الجاثیۃ: 43)
جب عدالت عظمیٰ کے ایک معزز جج پر الزام لگا تو جنابِ چیف جسٹس نے کہا: ’’میں نے انہیں اس لیے اپنے ساتھ بٹھایا ہے کہ پیغام دینا چاہتا تھا‘‘، تو حضورِ والا! کیا جج احتساب سے بالا تر ہے، اس پر لازم نہیں ہے کہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرے، حدیث ِ پاک میں ہے: ’’ام المؤمنین عائشہؓ بیان کرتی ہیں: نبیؐ نے فرمایا: جس کے حساب کی مکمل تفتیش کی گئی اسے عذاب دیا گیا، سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: میں نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: سو جس شخص کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو اس سے عنقریب بہت آسان حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے اہل کی طرف خوشی خوشی لوٹے گا، (الانشقاق: 7-9)، آپؐ نے فرمایا: یہ (ان کی بات ہے، جن کی صرف) پیشی ہو گی‘‘۔ (بخاری) حدیثِ مبارک کا منشا یہ ہے کہ جس سے تفصیلی حساب لیا گیا، ان کی نجات مشکل ہوگی، اسی کو آج کل ’’منی ٹریل‘‘ کہتے ہیں، حدیثِ پاک میں ہے: ’’ابو بَرزہ اسلمی بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں (اپنی جگہ سے) نہیں ہٹیں گے تاوقتیکہ اس سے ان سوالوں کے جواب نہ پوچھ لیے جائیں: یہ کہ اس نے اپنی زندگی کن کاموں میں بسر کی اور اس نے اپنے علم کے تقاضوں پر کس قدر عمل کیا، نیز یہ کہ اس نے مال کہاں سے اور کیسے کمایا اور کن مصارف پر صرف کیا اور اس نے اپنی جسمانی صلاحیتوں کو کن مشاغل میں استعمال کیا‘‘۔ (ترمذی)
قرآنِ کریم میں ہے: ’’سو جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، تو کہے گا: لو! میرا اعمال نامہ پڑھو، مجھے یقین تھا کہ مجھے اپنے حساب کا سامنا کرنا ہے، پس وہ بلند جنت میں پسندیدہ زندگی میں ہوگا، اس (جنت) کے پھلوں کے خوشے جھکے ہوئے ہوں گے،
(اس سے کہا جائے گا:) ان نیک کاموں کے عوض جو تم نے گزشتہ زندگی میں کیے، خوب مزے سے کھاؤ اور پیو اور رہا وہ جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، پس وہ کہے گا: کاش! مجھے میرا اعمال نامہ دیا ہی نہ جاتا اور مجھے معلوم ہی نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے، اے کاش! (موت ہی سے) میرا قصہ تمام ہو چکا ہوتا، میرا مال میرے کسی کام نہ آیا، (دنیا میں خوش فہمی پر مبنی) میری حجت جاتی رہی، (پھر حکم ہوگا:) اسے پکڑو، پھر اسے طوق پہنا دو، پھر اسے دوزخ میں جھونک دو، پھر اسے ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ کر لے چلو، بے شک یہ بڑی عظمت والے اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا‘‘۔ (الحاقہ: 19-33) اس لیے بعض بزرگوں کا قول ہے: ’’اللہ تعالیٰ سے عدل کا سوال نہ کرو، بلکہ اس سے اس کے فضل کا سوال کرو‘‘، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے عدل کا معاملہ فرمادے تو نجات پانا دشوار ہو جائے گا، ایک ایک لمحے اور ایک ایک سانس کا جواب دینا آسان نہیں ہوگا۔ عدل کے معنی ہیں: ’’اپنا حق پورا لینا اور دوسرے کو اس کا حق پورا دینا‘‘، جبکہ فضل و احسان کے معنیٰ ہیں: ’’اپنا حق چھوڑ دینا یا اپنے حق سے کم لینا اور دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دینا‘‘۔ سبق یہ ہے کہ لیکس کا یہ ناگ باری باری سب کو ڈسے گا، بچے گا کوئی بھی نہیں، احمد فراز نے کہا تھا:
میں آج زَد پہ اگر ہوں، تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں