حادثے، فتنے، پل پل بدلتے ہوئے حالات، مشکلات اب سن سن کر سن ہوچکے پڑھ پڑھ کر خود اخبار بن کر رہ گئے کوئی جو سامنے نظر آ جائے تو فراٹے سے خود بخود ہی زبان چلنے لگتی ہے اور دل پر سل کی طرح پڑے ہوئے حالات واقعات بتا کر ہی خاموش ہوتی ہے واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر پر جا بجا مسائل دکھی حالات واقعات کے انبار میں کہیں کہیں کچھ الگ سے نظر آ جائے تو جانیں انگلیوں کو ٹائپ کرنے کے لیے اک نیا موضوع اکسانے لگتا ہے اور ہم اپنے پسندیدہ اخبار کے برقی پتے پر برق رفتاری سے ثبت کرتے چلے جاتے ہیں ایسی ہی صورتحال کل ہوئی ایک نوجوان اور غیر شادی شدہ حافظ صاحب کے اسٹیٹس پر اشفاق احمد صاحب کے نادر الفاظ لکھے تھے جو کچھ یوں تھے ’’ہماری بہویں ہماری ساسوں سے کیوں نالاں رہتی ہیں، گھرکی چابیاں دے دیتی ہیں لیکن شاباش نہیں دیتیں۔ انہیں یہ فن آتا نہیں ہے۔ کبھی یہ نہیں کہتی کہ ’’تم نے میٹھے چاول پکا کر کمال کر دیا ہے۔ یہ گڑ والے چاول اتنے کمال کے ہیں کہ ہم سے یہ کبھی پک نہیں پائے ہیں۔ لڑکی یہ تم نے کیا ترکیب لڑائی ہے‘‘۔ اب ساس کے اتنا کہنے سے وہ زندہ ہو جائے گی اور ساری عمر آپ کی خدمت کرتی رہے گی۔ چاول کھلاتی رہے گی اور آپ کے لیے جان دے دے گی۔ اشفاق احمد‘‘
اس پورے متن کی تصدیق بھی نہیں کہ آیا واقعی اشفاق احمد صاحب ہی کی تحریر ہے یا سوشل میڈیا پر گردش کرتے ’’اقبال‘‘ کی طرح روح اقبالی کو جھنجھوڑ دینے والے باباجی کے ٹوٹکے کچھ بھی سہی بات سو فی صد درست تھی دل بیچارہ پہلے ہی سے انہی غموں کا مارا ہوا تھا کہ ٹھک سے جاکر یہ تحریر اس کے پرانے زخموں کو ہرا کر گئی جو ابھی سلے ہی ہیں کہ ہم پھر ’’ان‘‘ سے جا ملتے ہیں کہ جو شاباشی دینے کے لیے ہماری پیٹھ ٹھونکنے کے بجائے اپنا سینہ ٹھونکتے ہوئے آج بھی پہیے والی گاڑی پر چل کر کچن میں آ کہتی ہیں ’’اتنا بد ذائقہ کھانا بنایا ہے ذرا نمک مرچ ڈال کر بھون لو تو کچھ ذائقہ ہی آجائے‘‘۔
پچھلے ہفتے روداد سفر لکھی تو اک استاد محترم کہنے لگیں سفر کی ہی نہیں ’’لاہور‘‘ کی روداد بھی لکھو۔ سوچا کیا لکھوں؟ بات صرف لاہوری فروٹ چاٹ اور دہی بھلوں کی ہوتی تو دیوان لکھ ڈالتے کھا، کھا کر لکھتے اور لکھ لکھ کر کھاتے آتے جاتے بس کھاتے، کھلاتے اور لکھتے لکھاتے ہی چلے جاتے مگر یہ کیسے لکھ دیں کہ ہم لاہور ہوں یا ’’وہ‘‘ کراچی میں ہوں حالات یہ ہوتے ہیں۔
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
اور من وتو کا فرق ہم نہیں مٹاتے جب ہمارے سر کے تاج بہت زیادہ مہربان ہو کر تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’آج کھانا ایسا لگا جیسے امی کے ہاتھ کا ہو‘‘۔
لیجیے جناب تعریف بھی ایسی کہ بقول شاعر
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
کیا کہیں جو چاہے آپ کا حسن ِ کرشمہ ساز کرے۔ یہاں تقاضا ہے تعریف کا ہم تو ایسا تقاضا کیا اس کی جرأت بھی نہیں کرتے بس چاہتے ہیں کہ بیس اکیس برس گزر چکے ہیں اب تو تنقید نگاری کے فن کو تخلیقی صلاحیتوں کے پر لگا کر اگلی نسل کے افکار کی تعمیر میں لگا دیجیے بس ہم پر بہت تحقیق وتنقید ہو چکی لللہ ذرا گفتگو کا رخ موڑ بھی دیجیے۔
کراچی آمد ہوتی ہے تو ہم یو ٹیوب کے بابوں سے لیکر آن لائن ڈھابوں تک کو چھان مارتے ہیں مگر جناب ذرا جو پتا لگا کہ اس غذا کی تیاری میں ہمارے دست مبارک بھی شامل تھے بس پھر تو خاموشی ہی بھلی۔ مگر حیرت ہمیں اس بات پر ہوتی تھی کہ وہی ناقص بدمزہ اور انتہائی فضول کھانا جب ان کے میکے والوں کے سامنے رکھ دیا جائے اور وہ تعریفوں کے پل باندھ کر اسے کھا لیں تو ان کے بھی حلق سے نیچے اتر ہی جاتا ہے اس جملے کے ساتھ۔
’’کبھی کبھی اچھا بھی بنا ہی لیتی ہے‘‘۔
میں نے جب بھی سرتاج سے شکوہ کیا جواب ملا :’’جو ساس بہو سے اور بہو ساس سے خوش ہے اور نیک گواہی دے اس پر جنت واجب ہے‘‘۔ (اقوال سرتاج)
یعنی کہ مرے پہ سو بھی نہیں دو سو درے ایک تو ’’خوش‘‘ ہونے کی اداکاری بھی کرے اوپر سے ’’نیک‘‘ گواہی دینے کی صدا کاری بھی کرے۔ خیر ہمیں کیا ہماری تو گزر گئی مزید گزارنے کی حسرت بھی نہیں رہی جتنی گزری جس قدر گزری اسی تگ و دو میں گزری کہ دنیا تو جتنی نصیب میں تھی ملی شکر الحمدللہ بہت زیادہ اچھی ملی کہ اس سے زیادہ ’’دنیا‘‘ کا اچھا ہونا ممکن بھی نہیں آخرت کے ابدی ٹھکانے کی اصلاح کی کوشش ضروری ہے اور وہ تبھی ممکن ہے جب صرف درگزر ہی ناں ہو بلکہ برائی کے بدلے اچھائی جیسی ہو۔
اگر کوئی خاتون اپنے والدین کی خدمت نہ کر سکی بوجوہ گھریلو سیاسی پابندی کے، ماں کی وفات پر نہ جاسکے تو اس کا انتقام کیا ہوگا؟
جواب میں وہ بھی ایسا ہی کرے گی اور اس قطع رحمی کی سزا نہ صرف اسے ملے گی بلکہ اس کے والدین کے لیے عذابِ جاریہ بھی ہو گا کیا ہی اچھا ہو کہ جس نے آپ کو نہ جانے دیا ہو اس کے ساتھ جائیں جس کی وجہ سے آپ پر پابندی لگی ہو اسے آزادی سے اپنی اولاد سے مستفید ہونے دیں جس نے آپ پر تنقیدی محاذ کھولا ہو اس پر تعریف و ستائش کے ڈونگرے برسا دیں یقین جانیں آپ اپنے والدین سے ملکر بھی انہیں وہ راحت نہیں پہنچا سکتے تھے جو راحت آپ کے ان نیک وعظیم اعمال کے سبب اللہ ربّ العزت نے آپ کے مرحوم والدین کو پہنچا دی ہوگی۔ سب کچھ دنیا میں ہی نہ مانگ لیا کریں کچھ آخرت کے لیے بھی چھوڑ دیا کریں۔ خوش رکھیں ان شاء اللہ جلد ہی خوش رہنے لگیں گے۔