ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ
مہنگا ئی اور سیاسی ابتری کے حالیہ طوفان میں کچھ اچھی خبروں کا آ جانا حکیم الامت علامہ اقبال کے اس شعر کی تشریح ہے۔ تو پہلی خبر کے مطابق پی ڈی ایم حکومت نے اپنے پہلے سال میں تین ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی۔ اس دوران وزیراعظم شہباز شریف نے پانچ اہم بجلی گھروں کا افتتاح کیا جو موجودہ حالات میں قابل ستائش اقدام ہے۔ گزشتہ برس گرمی کے موسم میں شہریوں کو چار سے آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہا، بجلی کا شارٹ فال 7200 میگاواٹ جبکہ مجموعی پیداوار 20 ہزار میگاواٹ تھی گویا تین ہزار میگاواٹ شامل ہوجانے سے حالیہ سیزن میں اب بھی کم سے کم چار ہزار میگاواٹ کمی لاحق رہے گی اور مئی تا اگست طلب میں اضافہ ہوگا۔ اس وقت بجلی کی کل پیداوار کا 42 اعشاریہ تین فی صد تیل و گیس، 23 فی صد پانی، 19 اعشاریہ پانچ فی صد کوئلہ، سات اعشاریہ سات ایٹمی توانائی جبکہ تین فی صد ہوا اور دھوپ سے حاصل ہورہا ہے۔ گزشتہ برس نیلم جہلم ہائیڈرل منصوبے میں تعطل آجانے سے قومی پیداوار میں جو چار فی صد کمی واقع ہوئی تھی، مرمت کے بعد جولائی 2023 سے بحال ہوجائے گی۔ ملک کو توانائی کے حالیہ بحران میں سب سے زیادہ تیل و گیس کے شعبے میں مشکلات کاسامنا ہے جس کا بڑا انحصار اس کی درآمد اور زرمبادلہ کی دستیابی پر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پیداوار میں تیل و گیس کا حصہ زیادہ ہونے سے بجلی کی اوسط قیمت 40 روپے فی یونٹ بنتی ہے لیکن گھریلو صارفین سے 29 روپے وصول ہورہے ہیں۔ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر قرضے کی قسط کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ ممکنہ طور پر حالیہ دنوں میں طے پائے جانے والے معاہدے کے مطابق رواں مالی سال میں یہ فرق دور کیا جانا شامل ہے جس کی رو سے کم آمدنی اور تاریخ کی بلند ترین مہنگائی سے دوچار عام آدمی ایسی بجلی کا متحمل نہیں ہوسکتا اور حکومت کا تیل و گیس پر انحصار ختم کرنا اس کی واحد شرط جبکہ لائن لاسز کی شکل میں بجلی کی چوری کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
اب دوسری قابل ِ ذکر بات کچھ یوں ہے کہ جیسا کہ آپ باخبر ہیں ہم سب کی نظریں ان دنوں عدالت عظمیٰ میں اس درخواست کی سماعت کی طرف مرکوز ہیں جس میں قومی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ساتھ ساتھ کرانے کی استدعا کی گئی ہے۔ سردار کاشف خان کی دائر کردہ درخواست کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سرکردگی میں کرنے والی بینچ کے دیگر ارکان جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر ہیں۔ گزشتہ ہفتے اٹارنی جنرل منصور اعوان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے فاروق نائیک کی بینچ ارکان سے چیمبر میں ملاقات کے بعد سماعت 27اپریل تک ملتوی کردی گئی تھی۔ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ کابینہ کے سینئر ارکان اور تحریک انصاف کے ایک عہدیدار کی 26اپریل کو ملاقات طے کی گئی ہے۔ سماعت میں التوا کی ایک وجہ سیاسی رہنمائوں کی عیدالفطر منانے کے لیے اپنے آبائی علاقوں میں روانگی بھی تھی۔ وطن عزیز اس وقت جس سیاسی و آئینی بحران کا سامنا کر رہا ہے اس میں ہر لمحہ نئی تبدیلی اور پیش رفت سامنے آ رہی ہے جبکہ ملک کو درپیش خارجی خطرات (مثلاً بھارت کے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کے اشارے، دہشت گردوں کی دراندازی و سرگرمی، وادی تیراہ میں شدت پسندوں کی سیکورٹی فورسز سے جھڑپ) بھی ایسی باتیں نہیں کہ انہیں سرسری طور پر لیا جائے۔ عرصے سے جاری سیاسی و آئینی بحران کی کیفیت ایسی ہے جس کی تفصیلات سے کسی دن کا اخبار خالی نہیں ہوتا۔ اخبارات میں شائع خبریں دن میں ایک بار یعنی چوبیس گھنٹے کے بعد آتی ہیں مگر یہ ایسا مطبوعہ ریکارڈ ہے جو ہر قاری اور تحقیق کرنے والے کی دسترس میں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں شائع ہونے والی خبروں پر اظہار رائے میں بعض اوقات یہ واضح کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ مزید ممکنہ پیش رفتوں سمیت اس روز رونما ہونے والے واقعات کی تفصیلات ان سطور کی اشاعت تک آنے کے امکانات ہیں۔ تادم ِ تحریر شائع ہونے والی جو خبریں پیش نظر ہیں ان میں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کا عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دیگر ججوں کو لکھا گیا خط بھی شامل ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آرٹیکل 79 اور 85 میں فیڈرل کنسولیٹڈ فنڈ سے اخراجات کا اختیار قومی اسمبلی کو حاصل ہے، عدالتی فیصلے سے پارلیمینٹ کا استحقاق مجروح ہوا، عدالت عظمیٰ سیاسی الجھن میں نہ پڑے، قومی اسمبلی یہ سمجھتی ہے کہ 4، 14 اور 19 اپریل کو تین رکنی بنچ کی طرف سے دیے گئے احکامات چار تین کی اکثریت سے دیے گئے فیصلے کی خلاف ورزی ہیں۔ اسٹیٹ بینک اور خزانہ ڈویژن کو الیکشن کمیشن کے لیے 21 ارب روپے مختص کرنے کے احکامات پر عملدرآمد قومی اسمبلی نے روک دیا ہے، قومی اسمبلی آئین اور عوام کی طرف سے دیے گئے حق اور اختیار کا مکمل دفاع کرے گی۔ گزشتہ بدھ کے روز قومی اسمبلی میں کی گئی تقاریر میں وزیر خارجہ بلاول زرداری، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور دیگر مقررین کی جانب سے پارلیمان کی بالا دستی کے حوالے سے پرجوش تقاریر کی گئیں۔ بدھ ہی کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت حکمران اتحاد کے اجلاس میں توہین پارلیمینٹ پر 3شخصیات کو طلب کرنے سمیت اہم فیصلے کیے گئے، وزیراعظم پر مکمل اعتماد کے اظہار کے ساتھ انہیں تمام فیصلوں کا اختیار دیا گیا اور توہین عدالت کی کارروائی کے ذریعے کسی منتخب وزیراعظم کو ہٹانے پر سنگین تحفظات ظاہر کیے گئے۔ اتحادی جماعتوں اور خود وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ موجودہ حکومت کی مدت تکمیل پر الیکشن کے لیے اکتوبر نومبر کی تاریخ بنتی ہے جبکہ ملک بھر میں انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہئیں سیاسی مبصرین کے تجزیوں کے بموجب اگر عدلیہ، پارلیمان یا سیاسی حلقوں سے کوئی خبرکسی بھی وقت متوقع ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں ہوگی اور اس سے پاکستانی قوم کا اضطراب کم کرنے میں مدد ملے گی۔
اب یہ با ت بھی ہم سب جا نتے ہیں کہ پاکستان چین کے لیے خطے میں اہم اسٹرٹیجک شراکت دار کی حیثیت رکھتا ہے جس کی ایک مثال چین کا بلین ڈالر منصوبہ سی پیک ہے جو پاکستان کی معاشی ترقی کو فروغ دینے میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت منصوبوں میں گوادر بندرگاہ، توانائی، مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہے اور اس پر تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ پاکستان میں سی پیک کے آغاز سے توانائی کے منصوبوں کی تعمیر میں تیزی آئی۔ سی پیک کی چھتری تلے پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری کا حجم 21 ارب ڈالر تک پہنچادیا گیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری توانائی کے شعبے میں ہے جس میں گوادر کے ایک پاور ہائوس کی بجلی بھی شامل ہے جو کوئلہ پر چلتا ہے قبل ازیں حکومت نے مذکورہ پاور ہائوس کی بحالی کا منصوبہ ترک کردیا تھا اور اس کی جگہ سولر پلانٹ میں بھی چین اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اقتصادی اور معاشی بدحالی کے ان مراحل میں چین کی جانب سے پاکستان کو آئی ایم ایف کی قسط کے تقریباً مساوی خطیر رقم ملنا پاک چین بے لوث دوستی کا ثبوت ہے۔