پاکستان میں بھی صحافت کی آزادی کا عالمی دن منایا گیا۔ اس حوالے سے مختلف اجلاسوں اور سیمینارز میں شرکت کا موقع ملا۔ بری خوشی ہوئی کہ پاکستان میں لوگوں کو صحافت اور اس کی آزادی کی بڑی فکر ہے اور اس سے آگاہ بھی ہیں۔ ایسی ہی ایک مجلس میں بیٹھے ہم سن رہے تھے کہ صحافیوں پر بہت ظلم ہورہا ہے۔ صحافیوں پر حکمران بھی ظلم کررہے ہیں، سیاسی جماعتیں بھی اور اب سب سے بڑا ظلم ان کے مالکان بھی کررہے ہیں۔ وہ صحافیوں کو معاشی طو رپر تنگ رکھتے ہیں تا کہ وہ اپنا فریضہ یکسوئی سے ادا نہ کرسکیں۔ اس حوالے سے کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان کے رویوں کی شکایت بھی کی گئی۔ اور یہ کوئی غلط شکایت بھی نہیں ہے۔ لیکن صحافت اور آزادیٔ صحافت اب ایک ایسی چیز کا نام بن گیا ہے کہ جس کے تحفظ کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیکڑوں تنظیمیں اور ادارے وجود میں آچکے ہیں۔ پاکستان مٰں بھی جرنلسٹس پروٹیکشن کا قانون ہے۔ تنظیمیں ہیں سب نے اس امر پر زور دیا کہ آزادی صحافت کا تحفظ کیا جائے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر چند سال بعد کوئی نہ کوئی ادارہ قائم ہوجاتا ہے جو صحافیوں کے تحفظ کا بیڑا ایک نئے انداز میں اٹھاتا ہے۔ دراصل یہ سودا بین الاقوامی سطح پر بکتا ہے اس میں فنڈز بھی ملتے ہیں اور دورے بھی ملتے ہیں۔ پہلے شکوہ تھا قوانین میں سقم ہے اس لیے صحافیوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے پھر قوانین بنتے گئے کمیشن بنتے چلے گئے شکایتی مراکز بن گئے، بین الاقوامی تنظیمیں بن گئیں، ساری دنیا میں صحافت کے بجائے آزادی صحافت کا غلغلہ ہے ہم نے بھی اس کوچے میں اکتسالیس بیالیس برس گزار ہی لیے ہیں تو سوچا ایک معاملہ رہ گیا ہے جس پر توجہ رفتہ رفتہ کم ہوتی جارہی ہے اور وہ ہے صحافت… آخر میں صحافت کے تحفظ کی جدوجہد کی جارہی ہے جس کے لوگوں کے قتل پر احتجاج ہورہا ہے، جس شعبے کے لوگوں کے معاشی قتل پر احتجاج ہے ان کی امداد کے لیے سب بے چین ہیں اس شعبے یا پیشے کے بارے میں ابلاغ کیوں نہیں ہورہا۔
اس مرحلے پر آکر ہمارا ان تنظیموں، اداروں، کمیشنوں اور سیمینارز سے اختلاف ہوجاتا ہے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں جو سودا بکتا ہے وہ سب بنانے لگتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ صحافی کہتا تھا کہ
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
لیکن 41 سال اس وادی میں گھومتے گھومتے ہم ایک ایک کرکے صبح پرستوں کو کھوتے جارہے ہیں، ہاتھوں میں قلم رکھنے والے کم اور دوسروں یا مافیائوں کی جیب میں اپنا قلم رکھنے والے بڑھتے جارہے ہیں۔ کراچی پریس کلب کے سیمینار میں سی پی این ای کے رہنما اور ایک صبح پرست صحافی ڈاکٹر جبار خٹک نے اس جانب توجہ دلائی کہ صحافت میں صبح پرستوں کی جگہ دولت پرستوں نے لے لی ہے۔ صحافیوں کی جگہ طرح طرح کے بلیک میلرز نے لے لی ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اب بلیک میلرز بھی کسی بڑے بلیک میلر کے ملازم بن جاتے ہیں۔ لوگ صرف اخبار کا کارڈ بنوانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ کچھ صحافی تنظیموں کا کارڈ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کچھ پریس کلبوں کی رکنیت کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ جب آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو تو کہاں کے صبح پرست اور کہاں کا قلم۔ کون صبح پرستی کی آرزو کرے گا اور کون ہاتھوں میں قلم اٹھائے گا۔ پھر ہاتھ کون قلم کروائے گا۔ پہلے صحافت مشن ہوتی تھی لیکن اب صحافتی اداروں کے مالکان کا بزنس ہے اور یہ بزنس اتنا گر گیا ہے کہ اس پر دھندے کا شبہہ ہونے لگتا ہے۔
جو ادارے، جو تنظیمیں، جو لوگ صبح پرستی کا دعویٰ کرتے ہیں، ہاتھوں میں قلم اور ہاتھ قلم کے لیے تیار ہیں تو وہ یاد رکھیں کہ ہمارے چالیس اکتالیس برس کے صحافتی کیریئر میں آج تک کسی قانون، کسی کمیشن، کسی تنظیم کی بدولت صبح پرستی نہیں ہوسکی۔ صبح پرستی اس وقت ہوئی جب ہاتھوں میں قلم رکھنے والا قلم کی حرمت کا پاسبان رہا۔ جب صحافی قلم کا پاسبان ہوگا وہ یہ جانتا ہوگا کہ ’’ن، قسم سے قلم کی، اور اس یس جو لکھا جارہا ہے‘‘ کا مطلب کہا ہے تو پھر اس کی تنظیم میں بھی جانا ہوگا اس کے محافظ قانون بھی مضبوط ہوں گے۔ لیکن اگر دولت پرستی کے چکر میں حق کو ناحق قرار دیتے رہے اور لوٹ کے مال پر کوئی جھگڑا ہوگیا تو ہاتھ قلم ہو یا گردن اس کا صحافت یا صبح پرسیت سے کوئی علاقہ نہیں۔ ڈاکٹر جبار خٹک نے بہت احتیاط سے توجہ دلائی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب اس قدر گبار میں یہ صحافت اَٹ چکی ہے بلکہ ڈھنپ چکی ہے کہ کوئی کسی نوآمواز صحافی کو صحافت کا درس دے تو وہ کہتا ہے کہ پیٹ کیسے بھرے گا۔ یہ ایک ایسا چکر ہے کہ اس کے جواب میں کسی بھوکے یا محروم سے نہیں کہا جاسکتا کہ صحافت مشن ہے۔ اس مشن کا یہ حال ایک مشن کے تحت کیا گیا۔ ہماری تاریخ کے بڑے بڑے صحافی اور مضبوط کردار کے مالک قلمکار بہت مالدار اور کھاتے پیتے لوگ نہیں تھے لیکن ان کا کردار ان کی ان فطری ضروریات کے مقابلے میں بہت مضبوط تھا۔ جس زمانے میں صحافی کو خراب یا کمتر سمجھا جاتا تھا تو اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی تھی کہ سگریٹ پیتا ہے یا شراب نوش ہے اور کم آمدنی والا ہے۔ لیکن آج بڑی بڑی آمدنی والے موجود ہیں لیکن صحافت عنقا ہوتی جارہی ہے۔ صحافت سے کمانے والوں اور ملک میں صحافی تیار کرنے کے کارخانے یعنی تعلیمی اداروں کو بھی اس جانب توجہ دینی ہوگی۔ یہ کام تعلیمی ادارے کا اور صحافتی اداروں کا ہے کہ صحافتی اقدار اور اخلاقیات کو زندہ کریں۔ قلم کی حرمت زندہ ہوگی تو صحافت بھی آزاد ہوگی، رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اور زندگی موت بھی اسی کے ہاتھ ہے۔ ان چیزوں کے لیے صحافت کا سودا منظور نہیں۔