سیاسی لوگ انصاف نہیں، من پسند فیصلے چاہتے ہیں، چیف جسٹس

418

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے عدالتی اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس کی زیر سربراہی عدالت عظمیٰ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔

عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرنے کے ساتھ جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے اور کیس کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ بھی طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔ عدالت نے سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں سے 8 مئی تک جواب مانگ لیا۔

عدالت نے مقدمے کے فریقین سے تحریری جواب طلب کرلیا۔  چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقدمے پر فریقین سے سنجیدہ بحث کی توقع ہے۔

قبل ازیں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کے اختیار  سے متعلق وفاقی فہرست کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں۔ پاکستان بار کونسل کی جانب سے حسن رضا پاشا نے عدالت میں بتایا کہ پاکستان بار نے ہمیشہ آئین اور عدلیہ کے لیے لڑائی لڑی ہے۔مناسب ہوگا اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بینچ میں7 سینئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا۔ بینچ کے ایک رکن کے خلاف 6 ریفرنس دائر کیے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کردی۔

سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی استدعا فی الوقت مسترد کرتے ہوئے قانون پر عمل درآمد سے روکنے کے حکم میں توسیع کردی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 7 سینئر ججز اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ افتخار چودھری کیس میں عدالت نے قرار دیاتھا کہ ریفرنس صرف صدر مملکت دائر کرسکتے ہیں۔ کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک جج کو کام کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شکایات ججز کے خلاف آتی رہتی ہیں۔ مجھ سمیت سپریم کورٹ کے اکثر  ججز کے خلاف شکایات آتی رہتی ہیں۔ سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے۔ سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔ انتخابات کے مقدمے میں بھی کچھ ججز کو نکال کر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کا پابند ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاشا صاحب آپ نفیس آدمی ہیں، اپنےارد گرد سے معلوم کرائیں آپ کے لوگ کس کو فل کورٹ کہتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار نے ادارے کا تحفظ کرنا ہے۔ ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے ۔ اگر سپریم کورٹ کے ججز کو احترام دینےکے بجائے انتخاب کیا جاتا تو پھر آپ انصاف نہیں چاہتے ۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت بینچ بڑھانے پر غور کرے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے سمجھا تو دیں کہ قانون کیا ہے اور کیوں بنا؟ بینچ کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی حکم امتناع واپس لینے کی استدعا مسترد  کردی۔