کہا تھا بوڑھوں کے ساتھ کبھی نہ بیٹھنا

942

ایک صاحب کی شادی کی عمر نکل گئی، آخر ایک لڑکی پسند آ گئی تو رشتہ بھیجا، لڑکی نے دو شرطیں رکھیں اور شادی پر تیار ہو گئی۔ ایک شرط یہ تھی کہ ہمیشہ جوانوں میں بیٹھو گے دوسری شرط یہ تھی کہ دیوار پھلانگ کے گھر آیا کرو گے۔ شادی ہو گئی بابا جی جوانوں ہی میں بیٹھتے۔ جوان ظاہر ہے لڑکیوں اور پیار محبت ہی کی باتیں کرتے ہیں، منڈیوں کے بھاؤ تاؤ سے انہیں دلچسپی نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی دیگر موضوعات سے کچھ لینا دینا، باباجی کا موڈ ہر وقت رومینٹک رہتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھی گھر جاتے، ایک ہی جھٹکے سے دیوار پھلانگ کر دھم سے گھر میں کود جاتے۔ آخر ایک دن بابا جی کے پرانے جاننے والے ہم عمر مل گئے، وہ انہیں گھیر گھار کر اپنی پنڈال چوکڑی میں لے گئے، اب وہاں کیا باتیں ہونی تھیں؟ یار گھٹنوں کے درد سے مر گیا ہوں بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں، میرے بھائی جان کی ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ کھل گیا ہے، ڈاکٹر کہتا ہے جھٹکا نہ لگے، یار مجھے تو نظر ہی کچھ نہیں آتا، کل پانی کے بجائے مٹی کا تیل پی گیا تھا، ڈرپ لگی ہے تو جان بچی ہے۔ باباجی جوں جوں ان کی باتیں سنتے گئے توں توں اس کا حوصلہ زمین بوس ہوتا چلا گیا اور رنج و الم نے دل میں گھر کرنا شروع کر دیا، جب پرانا مرض بامِ عروج پر پہنچا تو مجلس برخواست ہو گئی اور بابا گھسٹتے پاؤں گھر کو روانہ ہوئے۔ گھر پہنچ کر جو گھر کی دیوار پر نظر ڈالی تو وہ دیوار دیوارِ چین سے بھی بلند اور ناقابل ِ عبور نظر آئی۔ ہمت نہ پڑی کہ دیوار کود کر گھر میں داخل ہوں، کہیں فلاں بابے کی طرح کمر میں چک نہ نکل آئے۔ آخر ماڈل تو دونوں کا ایک ہی تھا، باباجی نے کُنڈی کھٹکھٹائی۔ کھٹ کھٹ کی آواز کے ساتھ ہی اندر سے بیوی بولی، اسی لیے تو کہتی تھی جوانوں میں بیٹھا کرو، لگتا ہے آج بوڑھوں کی مجلس میں بیٹھ کر آ رہے ہو، تب ہی ہمت جواب دے گئی ہے۔ بات تو دل کو لگتی ہے۔ صحت ہو یا بیماری، بے شک منجانب اللہ ہی ہوا کرتی ہے لیکن ماحول کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے۔ اگر لوگ ایسے ماحول میں بیٹھیں جو غم و اندوہ زدہ ہو تو انسان کے اعصاب بہت جلد شل ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن اگر ارد گرد حوصلہ و ہمت والے افراد ہو تو اعصاب کی سختیاں بہت جلد ڈھیلے پن کا شکار نہیں ہوا کرتیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں مقید افراد اور دنیا گھومنے والوں کے چہروں میں بڑا واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔
70 یا 72 برس کی عمر بہت ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہوا کرتی ہے لیکن کیا ہمارے بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں، جنرلوں، قاضیوں اور کھاتے پیتے گھرانوں والوں کے مرد و زن ویسا ہی چہرہ مہرہ رکھتے ہیں جو ہماری غریب ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور مردوں کا ہوتا ہے۔ یوتھیوں کا بابائے اعظم ہو یا جاتی عمرہ کے شرفا، نانی اماں ہوں یا سابقہ خاتونِ اول، ان کا مقابلہ گاؤں دیہاتوں کی کیا شہروں کی رہنے والیاں بھی نہیں کر سکتیں۔ اب مجھے کوئی یہ بتائے کہ اگر یہ سب رہبران اپنے اپنے حلقہ یاراں سے باہر نہیں آنا چاہتے، جن کے روئیں روئیں میں سیاست خون بن کر گردش کر رہی ہو تو وہ آخر کس طرح اپنے اپنے خون سے غداری کر سکتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کی تڑپ بھی ان کا چہرہ سرخ سرخ کرکے رکھ دیتی ہے اور جب وہ تختہ اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں تو چہرے کی یہ سرخی آنکھوں تک میں اُتر آتی ہے اور پھر مخالفوں کا وہ وہ ستیاناس مارتے ہیں کہ زمین تک سرخ ہو کر رہ جاتی ہے لیکن جب اقتدار سے باہر کر دیے جاتے ہیں تو وہی چہرے چھوہارہ سا دکھائی دینے لگتے ہیں۔
ایک شخصیت ایسی بھی ہے جو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ان سے پہلے ناہل ہوجانے والے سے بھی زیادہ زخمی سانپ بنی نظر آتی ہے۔ پہلا والا تو صرف یہی پوچھتا پھر
رہا ہے کہ مجھے ’’کیوں نکالا‘‘ لیکن دوسرا تو اب تک نکالنے والوں کے ناموں کی سنچری بھی بنا کر اپنی اننگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ دنیا کا اب شاید ہی کوئی ملک بچا ہو جو اسے نکالنے کی سازش میں ملوث نہ ہو اور پاکستان کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جس نے اسے دھکا نہ دیا ہو لیکن اس کے باوجود بھی کئی نام ایسے ہیں جو وقفے وقفے سے سامنے لانے کی پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔ ویسے تو چہرہ اس کا بھی کشمش سا ہی ہو گیا ہے لیکن یہ بات تعجب خیز ہے کہ محفل جوانان و حسینان اس نے اپنے اطراف میں برپا کی ہوئی ہے، ممکن ہے کہ شادی کے بعد اس کی بیوی نے بھی یہ شرط رکھی ہو کہ ہمیشہ جوانوں اور حسینوں کی محفلوں میں بیٹھا کرنا اور جب راہ فرار کی نوبت آ جائے تو دیوار کود کے بھاگ جانے میں کبھی دیر نہ کرنا۔ اب سے کچھ دن پہلے تک تو اس کا اپنی بیگم کی ان دونوں شرائط پر سختی سے عمل جاری تھا۔ اپنے محل کے اطراف میں حور و غلمان کا ہجوم اکھٹا کیا ہوا تھا۔ رات دن دکھائی دیتی تھی اور دن تو بہر حال دن ہی ہوا کرتا ہے۔ جب جب گھروں پر چھاپے پڑے، بڑی دلیری کے ساتھ بنا سیڑھی لگائے، پچھلی دیواروں سے ایسی ایسی ’’کود‘‘ لگائی کہ 75۔ 75 برس ٹریننگ حاصل کرنے والے اور دشمنوں کے گھروں میں گھس جانے کی مہارت رکھنے کے دعویدار بھی انگشت بدنداں رہ گئے
لیکن نہ جانے اب کس کے بہکاوے میں آکر وہ آثارِ قدیمہ والوں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے بیٹھ گیا ہے۔ سوچتا ہوں کہ جب وہ پھلانگی گئی پچھلی دیواریں دوبارہ پھلانگنے کے ارادے سے واپس اپنے گھر میں آنا چاہے گا تو جوڑوں، گھٹنوں کے دردوں اور کمر میں آجانے کی چک کا خوف اسے کنڈی کھٹکھٹانے پر مجبور نہ کردے اور پھر اندر سے آواز آئے کہ ’’اسی لیے تو میں کہتی تھی بڈھوں‘‘ کے ساتھ کبھی نہ بیٹھنا۔