اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اعلیٰ ترین عدالتوں کا عدل زیر بحث ہے اور مول تول کے تذکرے زبان زد خاص و عام ہیں۔ عدل و انصاف جو جج کی امتیازی شان ہوا کرتی ہے مشکوک ہوتی جارہی ہے۔ دوہرے عمل و کردار نے ان کے فیصلوں پر بھی سوال اُٹھائے ہوئے جو ہرگز ایسے نہیں کہ درگزر کردیے جائیں۔ مملکت پاکستان کا نظریہ کوئی مانے یا نہ مانے اسلامی ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس صورت حال میں شریعت کی کسوٹی ان جج صاحبان کے فیصلوں کے بارے میں کیا فیصلہ دیتی ہے۔ مطالعہ سے معلوم ہوا کہ ایک مسلک یہ ہے کہ رشوت ستانی کا واقعہ جس مقدمہ میں رونما ہوا اس مقدمہ یا دوسرے مقدمہ میں اس قاضی کا فیصلہ نفاذ کے لائق ہوگا۔ بشرطیکہ فیصلہ کی سب شرائط درست ہوں اس قول کو امام بزدوی نے اختیار کیا ہے اور ساتھ ہی علامہ ابن عابدین نے اپنی کتاب ردالمختار علیٰ الدرالمختار میں اقول کی تائید یوں کی ہے کہ اس زمانے میں اس قول پر مجبوری کے تحت اعتماد کرنا ہوگا ورنہ موجودہ بیش تر وقوع پزیر مقدمات کے فیصلے ٹوٹ جائیں گے کیونکہ آج کون سا ایسا قضیہ ہے جس میں قاضی رشوت نہ لیتا ہو۔ الگ بات ہے کہ اس کا نام یافت، دھول یا کچھ اور ہوتا ہے۔ غرض فیصلہ سے پہلے یا بعد میں اس کا ارتکاب کیا جاتا ہے لہٰذا اگر فیصلے نافذ العمل نہ مانے جائیں تو سارے احکام ٹوٹ کر رہ جائیں گے۔
جمال الدین بزدوی نے اپنی کتاب العقود الدریہ میں لکھا ہے ہمارے زمانے کے ان قاضیوں کے درمیان اللہ ہی بہتر فیصلہ کرسکتا ہے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے دین کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے ہمارے نبیؐ کی شریعت کو تہس نہس کردیا ہے اور آج اس کا صرف نام اور کچھ رسمیں باقی رہ گئی ہیں۔ کتاب لسان الحکام میں لکھا ہے کہ فاسق کو جب منصب قضا دیا جائے گا تو وہ قاضی ہوجائے گا ایسا قاضی جس قسم کا حکم دے گا نافذ ہوگا البتہ دوسرے قاضی کو اس فیصلے کو توڑ دینے کا اختیار ہوگا۔ دوسرا قاضی جب پہلے قاضی کے فیصلے کو باطل قرار دے گا تو اب کسی اور قاضی کو اس کے نفاذ کی اجازت نہیں ہوگی۔ دوسرا مسلک یہ ہے کہ کسی مقدمہ میں قاضی رشوت لے کر فیصلہ کرے تو اس قضیہ میں اس کا فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔ خواہ اس کا فیصلہ مبنی برحق کیوں نہ رہا ہو۔ یا اُس کے بیٹے یا معاون نے رشوت لی ہو۔ اور قاضی کو معلوم ہو اس طرح اگر اُس نے فیصلے میں کوئی ایسا حیلہ کیا کہ اس مقدمے کو کسی ایسی عدالت میں بھیجا جہاں متعلقہ آدمی کے مسلک کے مطابق فیصلہ ہو تب بھی اس کا فیصلہ نافذ نہ ہوگا۔ (فتح القدیر معین الاحکام بدائع الضائع فتاوے الہندء) جب قاضی رشوت لے کر فیصلہ کرتا ہے تو وہ اپنے حق میں فیصلہ صادر کرتا ہے نہ کہ اللہ کے لیے فیصلہ کرتا ہے اس لیے اس کا فیصلہ صحیح نہیں ہوگا (بدائع الضائع)
تیسرا مسلک یہ ہے کہ جس مقدمے میں اُس نے رشوت لی اور اس کے علاوہ جس میں رشوت نہ لے اُس کے تمام فیصلے نافذ نہیں ہوں گے امام ابوحنیفہؒ کا یہ مسلک ہے، مالکیہ اور حنبلیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام ابوحنیفہ کے قول پر رائے زنی کرتے ہوئے قرطبی نے کہا ہے کہ اللہ نے چاہا تو اس قول سے کوئی شخص اختلاف نہیں کرے گا کیوں کہ رشوت ستانی کا فعل فسق تھا اور فاسق کا حکم جامہ نہیں۔ (الجامع الاحکام القرآن القرطبی)جمہور علما تیسرے مسلک پر متفق ہیں کہ اس کے رشوت لے لینے کی وجہ سے اُس کا تقرر باطل ہوگا اور فسق کی وجہ سے اُس کے احکام لائق نفاذ نہ رہے۔