گزشتہ ہفتے دستور پاکستان کے پچاس برس مکمل ہونے پر تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں وزیراعظم، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر نے شرکت کی ہے۔ مقررین نے اس موقع پر آئین کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور آئین کے مطابق چلنے کی باتیں کی گئیں۔ 1973 کا متفقہ آئین منظور کر کے اس وقت کی سیاسی قیادت نے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر جمہوری سیاست کی پاسداری کی اور متفقہ طور آئین کی منظوری دے کر تاریخ رقم کی، تمام تر ترامیم اور مشکلات کے باوجود آئین نے وفاقی اکائیوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔ بلاشبہ 1973 کا آئین ہمارے لیے ایک مقصد امانت ہے جس کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے موجودہ آئین نے ملک کو استحکام دیا ہے اور قومی یکجہتی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ آئین بنانے والوں کی گہری نظر اور بصیرت کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے فرد سے لے کر ملکیت تک کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا ہے، اگرکوئی صدقِ دل سے رہنمائی لینا چاہے تو اس آئین سے اسے رہنمائی مل سکتی ہے، مگر خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آئین کی شقوں کو توڑ مروڑ کر اپنے مطلب کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارا آئین تو لکھا ہوا ہے اور بالکل واضح ہے۔ ہمارے سیاسی اکابرین کو چاہیے کہ وہ اب مفاد پرستی سے ہٹ کر بالغ نظری سے قومی سوچ کا مظاہرہ کریں۔ آئین میں جو لکھ دیا گیا ہے اس پر من و عن عمل کریں، چاہے اس کے نتیجے میں ان کا اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔ آئین سے انحراف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایسی دستاویز ہے جس پر ملک کے پورے نظام عمارت کھڑی ہے، اس کی بنیاد میں اگر کمزور کی گئیں تو پھر سب کچھ منہدم ہو جائے گا۔
کچھ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ آئین کو نئے سرے سے بنانے کی ضرورت ہے، انہیں شاید مشکلات کا علم نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ آئین روز روز نہیں بنتے۔ یہاں تو ایک چھوٹے سے معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوتا، آئین پر کیسے ہوگا؟ آئین کی تشریح کے لیے بار بار عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کی روایت کا خاتمہ ضروری ہے، اگر آئین کی کچھ شقوں میں ابہام ہے تو پارلیمان کا فرض ہے کہ وہ خود ابہام دور کرے، مثلاً اس وقت یہ بات تو واضح ہے کہ آئین اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دنوں میں انتخابات کا حکم دیتا ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ اگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا تو اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ اسی مقصد کے لیے عدالت عظمیٰ جانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ پچھلے دس پندرہ برسوں میں آئین میں ایسے جو بھی خلا، ابہام سامنے آئے ہیں انہیں دور کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہاں ہوتا یہ ہے کہ کسی بھی معاملے پر جب گرہ پڑتی ہے تو اسے کھولنے کے لیے ہر کوئی اپنی اپنی تعبیر کرتا ہے اور اس پر بضد بھی رہتا ہے۔ جس سے مسائل جنم لیتے ہیں اور ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستانی سیاست اور عدالت میں ساری گرما گرمی اس آئین کی تعبیر اور تشریح کے گِرد گھوم رہی ہے۔ یہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا متفقہ آئین ہے، اس آئین کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس کے بعد پاکستان کا نظام صدارتی سے پارلیمانی ہو گیا اور ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت صدر مملکت تھے، انہوں نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
1973 کے آئین میں اب تک 22 ترامیم ہو چکی ہیں، ترامیم ہونا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ 10اپریل 1973 کو موجودہ آئین کی منظوری کا تاریخی مرحلہ طے ہوا۔ آئینی مسودے کی تیاری، تدوین اور اتفاق رائے تک پہنچنے میں ایک برس کا عرصہ لگا۔ شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ اپریل 1972 سے اگست 1973 تک نظام حکومت عبوری دستور کے تحت چلایا جاتا رہا۔ اس عبوری آئین کے نفاذ سے قبل ذوالفقار علی بھٹو، یحییٰ خان کے ایل ایف او کے تحت سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کے مد مقابل اپوزیشن جماعتوں نے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے اتحاد تشکیل دے رکھا تھا۔ خان عبدالولی خان، مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، چودھری ظہور الٰہی اور شوکت حیات اسمبلی کے اندر حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کو ہدف تنقید بناتے رہے۔ اسی اسمبلی سے باہر پیر پگاڑا اور ائر مارشل اصغر خان حکومت کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ آج کی ہنگامہ خیز سیاست کا اگر اس دور سے تقابل کیا جائے تو دونوں ادوار میں بہت ساری مماثلتیں نظر آئیں گی۔ سیاسی تقسیم اور تناؤ، شخصیات کا ٹکراؤ اور جماعتی تصادم کا ماحول دونوں میں یکساں ہے۔ آج کے پاکستان میں دو صوبوں میں منتخب حکومتوں کے بغیر نظام چل رہا ہے۔ ان میں مستقبل کی حکومت کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت میں سیاسی کشیدگی اور عدالتی کشمکش عروج پر ہے۔
1973 میں وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان میں اپوزیشن کی منتخب حکومت کے خاتمے کے بعد سرحد میں اپوزیشن جماعتوں کی اتحادی حکومت نے احتجاجاً استعفا دے دیا تھا۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان براہ راست تصادم کے ماحول میں ایک برس کی طویل اور صبر آزما کشمکش کے بعد متفقہ آئین کا منظور ہونا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساری سیاسی قیادت آئینی سمجھوتے پر راضی ہو گئی تھی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد آئین پاکستان نے قوم کو یکجا کیا۔ ملک میں جمہوری راستے کی سمت متعین کی۔ آئین کی منظوری کے بعد بنیادی حقوق کی معطلی افسوس ناک امر تھا جس نے ملک میں جمہوری آزادیوں کے تصور کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان کے آئین نے 50 برسوں میں 20 سال آمریت کے سائے تلے گزرے۔ جنہوں نے اپنی مرضی کی ترامیم سے اس کی پارلیمانی اور جمہوری روح کو بدل کر رکھ دیا۔ آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے مارشل لا کے غیر قانونی اقدامات کو تحفظ دیا گیا جن میں دسمبر 1984 کا ریفرنڈم بھی شامل تھا۔ آٹھویں ترمیم کے تحت شق نمبر 41 میں ضیاء الحق ریفرنڈم کے نتیجے میں پانچ سال کے لیے صدر کی حیثیت سے چناؤ کا تذکرہ آئین میں درج کیا گیا۔ آٹھویں ترمیم میں 58 ٹو بی کی شق نے آنے والے دور میں تین منتخب حکومتوں کو گھر بھیج دیا۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اس غیر جمہوری شق کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یکم اپریل 1997 کو تیرہویں ترمیم کا بل ایوان میں پیش ہوا۔ اس دور کی اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو کو جب ایک رات قبل نواز شریف کی تقریر سے آئینی ترمیم کا علم ہوا تو صبح پہلی فلائٹ سے اسلام آباد پہنچ گئیں۔ ان کی جماعت نے اسمبلی اور سینیٹ میں اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔
آئین پاکستان کے پچاس برس کے سفر میں کئی نشیب و فراز آئے ہیں۔ مارشل لا کے ادوار میں اس کی ہیئت اور روح میں متعدد تبدیلیاں ہوئیں۔ پیپلز پارٹی نے 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پرویز مشرف اور ضیاء الحق کے دور کی بہت ساری متنازع اور غیر جمہوری شقوں کو آئین پاکستان سے خارج کر دیا۔ اس کے باوجود آئین میں ابھی تک ایسے آرٹیکلز موجود ہیں، جنہیں ختم کرنے یا ان میں ترامیم لانے کی ضرورت ہے۔ آج بھی بالادست طبقات آئین کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ڈھال لیتے ہیں جس سے اس کی جمہوری روح بتدریج کمزور ہو چکی ہے۔ پاکستان کے قیام کو 75 سال ہوگئے ہیں پہلے 25 سال کے عرصے میں تین آئین بنے اور انہیں بزور طاقت تبدیل کیا جاتا رہا۔ 1973ء کا آئین اس لیے سخت جان رہا کہ اس میں متفقہ رائے کی طاقت موجود ہے اور یہ اپنے اندر ملک کی چاروں اکائیوں کو متحد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مارشل لا آنے کے باوجود آمروں ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو یہ جرأت نہیں ہو سکی کہ اسے ختم کر سکیں ، انہوں نے کچھ عرصے کے لیے اس کی شقیں ضرور معطل کیں مگر پورے آئین کو کالعدم قرار نہیں دے سکے۔ فوجی آمروں کے اقدامات کو عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت آئینی تحفظ دیا، یہی نہیں بلکہ ارکان پارلیمنٹ نے بھی ان کی منظور دی، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ خیر یہ ایک علیحدہ بحث ہے اور ہماری تاریخ کا ایک بدنما باب ہے۔ یہ دم غنیمت ہے کہ آئین ابھی موجود ہے، پارلیمینٹ بھی اپنا آئینی کردار نبھانے کے راستے پر چل رہی ہے، گو اس کی رفتار انتہائی کم ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جمہوری ادارے مضبوط ہوتے چلے جائیں گے۔