لاہور: امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو خبرادار کرنا چاہتا ہوں کہ بلوچستان کو آتش فشاں نہ بنائیں، اگر مولانا ہدایت الرحمن کو رہا نہ کیا گیا تو جماعت اسلامی پورے ملک میں گوادر اور بلوچستان کی عوام سے یکجہتی اور مولانا ہدایت الرحمن کی رہائی کے لیے احتجاج کرے گی اور میں خود یکم مئی کو گوادر کی عوام سے خطاب کروں گا۔
منصورہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی وجہ سے جج نے مولانا ہدایت الرحمن کی ضمانت مسترد کر دی، عدالت میں پیشی کے دن جج کا تبادلہ کر کے انہیں جیل میں رکھنے کے لیے بہانے بنائے جا رہے ہیں ۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مزید کہاکہ گوادر کو حق دو تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن بلوچ گزشتہ 100 دنوں سے زائد پابندے سلاسل ہیں ،وہ گوادر کے باثیوں اور مچھیروں کے لیے پینے کا پانی اور روز گار مانگ رہے ہیں،علاقہ میں منشیات کا خاتمہ اور امن چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پر امن جد و جہد کو تشدد کے راستے پرنہ ڈالا جائے ۔حکومت گوادر کے عوام سے کیا گیا معاہدہ پر عمل در آمد کرے۔
سراج الحق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ 14 مئی کو الیکشن ہو گا جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ انتخابات کے نتیجے میں پاکستان میں مزید انتشارپھیلے گا۔آئین میں90 روز میں انتخابات کی دفعہ شامل ہے لیکن سپریم کورٹ اور صدر پاکستان کی ایڈوائس کے نتیجے میں90 دن105 دنوں میں تبدیل ہو گئے۔میں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے بھی سوال کیا کہ اگر90 دن105 ہو سکتے ہیں تو 205بھی ہو سکتے ہیں۔
ملک بیک وقت سیاسی، آئینی اور معاشی بحران سے دوچار ہے، چاروں صوبوں میں ایک ہی روز انتخابات ہونے چاہئیں،پاکستان صرف تین پارٹیوں کا نہیں، 23 کروڑ عوام اس کے اصل وارث ہیں۔
سراج الحق نے کہا کہ انہیں اپنے نمائندے آزادانہ طور پر منتخب کرنے کا حق دینا ہو گا، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک مزید انارکی کی جانب جائے گا اور اس گھمبیر صورت حال میں تیسرا فریق فائدہ اٹھا سکتا ہے، عام انتخابات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں سے رابط کیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد کوئی ایک دن مقرر کر لیں،چند سیاسی جماعتوں نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی ہیں اور عدلیہ کی پروسیڈنگ سے یہ تاثر بھی ملا کہ اعلیٰ عدلیہ بھی چاہتی ہے کہ سیاستدان مسئلے کا حل خود نکالیں۔