گوادر کا فراموش شدہ قیدی

858

اوریا مقبول جان
آج سے چالیس سال قبل جب میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر پہنچا تو یہ ایک خاموش اور پْرسکون بستی تھی، جہاں دن میں تھوڑی چہل پہل نظر آتی مگر رات کو سمندر کی لہروں کا شور، نیلگوں آسمان کی تاریک ہوتی بیک گرائونڈ پر ستاروں کی جھلملاہٹ اور چاند کا سفر۔ چند گھنٹوں کے لیے ایک جنریٹر سے بجلی مہیا کی جاتی تھی، جس کا شور رات بارہ بجے تک ماحول کے سنّاٹے کو اپنی بے ہنگم آواز سے توڑتا رہتا، مگر پچھلے پہر ایک ملکوتی سکوت چھا جاتا۔ میں اقوامِ متحدہ کے منشیات کے کنٹرول کے ادارے ’’فنڈ فار ڈرگ ابیوز کنٹرول‘‘ (FDAC) کی ایک تحقیق کے سلسلے میں بلوچستان کی بستی بستی گھوم رہا تھا۔ اس دَور میں پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لیے ایک مرکزی سطح کا ادارہ پاکستان نارکوٹکس کنٹرول بورڈ ہوتا تھا جو صوبائی محکمہ ٔ ایکسائز کے تعاون سے کام کرتا تھا۔ اس ریسرچ میں میرے ساتھ ایک جرمن محقق ہنس اسپیل مین (Hans Spielman) بھی تھا اور بلوچستان کے سفر میں اس وقت محکمہ ٔ ایکسائز کے ڈائریکٹر انور خان بھی ہمراہ ہوتے۔ ہم تینوں کا قافلہ ایک بڑی سی لینڈ کروزر میں بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور وسیع ریگستانوں کو عبور کرتا آبادیوں میں پہنچتا اور وہاں کے ایکسائز کے اہل کاروں کے توسط سے منشیات کے عادی افراد کا انٹرویو کرتا۔ چرس اور ایک جرمن گولی مینڈرکس (Mandrax) بہت عام تھی۔ یہ ایک (Hypnotic Sedative) دوا تھی، ایسی سکون آور دوا جو آدمی کو خوابوں کی سرزمین کی سیر کرواتی پھرے۔ ہمیں ان دونوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ہمیں ہیروئین کے عادی مریضوں کی تلاش تھی جو اس وقت نئی نئی دریافت ہوئی تھی۔
گوادر تک پہنچنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا تھا۔ کوئٹہ سے سوراب تک آپ آر سی ڈی ہائی وے کی پکی سڑک پر سفر کرنے کے بعد جیسے ہی گوادر کی جانب مْڑتے تو پھر سورج کی تمازت میں چمکنے والی کول تار کی سڑک ایک خواب ہو جاتی۔ اسی زمانے کی میری غزل کا ایک شعر اسی کیفیت کا عکاس ہے: کچھ دْور تک تو ساتھ چلی شہر کی سڑک رستے ہوئے کٹھن تو وہیں سے پلٹ گئی۔ کوئٹہ سے گوادر تک جانے کے لیے ایک رات قیام کرنا پڑتا تھا۔ بسیں بھی پنجگور کو بہتر ٹھکانہ سمجھ کر رْکتیں، ہم بھی کھجور کے باغات میں گھرے اس شہر میں قیام کے بعد اس راستے پر روانہ ہوتے جس پر گاڑیوں کی آمدورفت کے نشان بتاتے تھے کہ یہ ایک سڑک ہے۔ وسیع صحرا، بلندو بالا سنگلاخ پہاڑ جن کے درمیان تیزی سے گھومتی ہوا کی سرسراہٹ اور کبھی کبھی کسی بھولے بسرے پرندے کی آواز، پورا سفر ایسے ہی گاڑیوں کے دو ٹائروں کے نشانوں پر چلتے ہوئے طے ہوا۔ گوادر کا سکوت، نیلگوں سبز سمندر، انسانوں کی دسترس سے دْور ساحل اور وہاں آباد لوگوں کے پْرسکون اور مطمئن چہرے، ایسا کچھ تو بہت حسین لگتا ہے۔ ساحل کے ساتھ سمندر کے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے اسے چھوٹے چھوٹے ڈبوں پر مشتمل ایک ڈیڑھ فٹ گہرے تالاب میں اکٹھا کیا جاتا۔ ان ڈبوں کے اوپر شیشے لگے ہوتے۔ دھوپ کی حدت سے بھاپ بنتی اور پھر اسے ایک بڑے سے ٹینک میں جمع کر لیا جاتا۔ نمکیات ڈبوں میں رہ جاتیں اور صاف پانی ٹینک تک پہنچتا۔ اس کے علاوہ پہاڑ کے دامن میں تین بڑے بڑے کنویں کھودے گئے تھے، جن میں سے ایک میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا اور پھر نتھارنے کے عمل (Filtration) سے اسے درمیان والے کنویں سے گزار کر آخری کنویں میں صاف پانی اکٹھا کیا جاتا۔ اس سادہ سی زندگی پر مطمئن یہ بلوچ جو ماہی گیری سے رزق کماتے تھے، کوئی گِلہ شکوہ زبان پر نہ لاتے۔ کئی دنوں بعد ماہی گیروں کا جہاز لنگر انداز ہوتا تو دیوانہ وار رقص کرتے۔ شہر میں ایک سینما بھی تھا جس کی کوئی چھت نہیں تھی۔ میں اس میں فلم دیکھنے گیا تو ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی اور سامنے اسکرین پر پنجابی فلم چل رہی تھی اور فردوس کے رقص پر گوادر کے نوجوان شاداں و رقصاں تھے۔
ہیروین کا کوئی عادی تو ہمیں نہ مل سکا، لیکن شہر کے لوگ شکوہ کناں نظر آئے کہ یہ زہر ہمارے بلوچ نوجوانوں میں پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ سازش ہے اور وہ میرے جرمن ساتھی کی طرف اشارہ کر کے کہتے یہ لوگ سب کچھ کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے افغانستان میں روس کو شکست دینا ہے۔ گوادر کا ہر شہری آج سے چالیس سال پہلے بھی ملکی بلکہ عالمی سیاست پر پاکستان کے کسی دوسرے خطے کے لوگوں سے زیادہ بہتر انداز میں گفتگو کرتا تھا۔ بلکہ پنجاب اور سندھ کی ایسی چھوٹی بستیوں میں تو لوگوں کو ان معاملات کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ گوادر کی احتجاجی سیاست خواتین کے ہاتھ میں تھی۔ مرد چونکہ مچھلیاں پکڑنے سمندر میں ہوتے ہیں، اس لیے پانی نہ ملے، جنریٹر بند ہو جانے اور ایسے دیگر معاملات سے متعلق احتجاج کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنر کے دفتر تک جلوس لے کر خواتین ہی پہنچتی تھیں۔ اس طرح کی سیاسی بیداری دنیا کے کسی اور خطے میں بحیثیت مجموعی نہیں پائی جاتی۔ یہی سیاسی بیداری ہے جو گوادر کے ایک عام سیاسی کارکن اور جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کا ہتھیار بنی۔ مولانا ہدایت الرحمن گوادر کا اصل نمائندہ ہے، اسی لیے وہ نہ صرف پاکستان کے سیاستدانوں بلکہ بلوچستان کے قوم پرست سیاست دانوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔
گوادر پر جب عالمی طاقتوں کی للچائی ہوئی نظریں پہنچیں تو گوادر کے عوام نے سب سے پہلے اس خطرے کی بْو سونگھی۔ بلوچ قوم پرست رہنمائوں نے ’’ساحل اور وسائل‘‘ کے نام پر نعرے بازی شروع کی تھی تو میرا جب بھی گوادر جانا ہوتا، وہاں کے لوگ یوں شکوہ کناں ہوتے کہ پاکستان تو ہمیں عالمی منڈی میں بیچنا چاہتا ہے، لیکن ہمارے قوم پرست رہنما ہمیں پاکستان کے ساتھ سودے بازی میں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ یہاں دوسرے صوبوں سے اس شہر کو آباد کرنے کوئی نہ آئے اور ہماری زمینیں یوں ہی بے قیمت رہ جائیں اور پھر یہ قوم پرست رہنما ہماری زمین بلوچ قوم پرستی کے نام پر ہتھیا کر مہنگے داموں انہی ’’پارٹیوں‘‘ کو فروخت کریں۔ پھر ایک دن ہدایت الرحمن گوادر کے عوام کو لاحق اس خطرے کی گرجدار آواز بن گیا۔ اس نے کسی بڑے قوم پرست رہنما یا سیاسی پارٹی کی مدد کے بغیر ہزاروں افراد اکٹھے کر لیے، انہیں سڑکوں پر لے آیا، طویل دھرنے دیے اور پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اس کی شخصیت کی مقبولیت سے خائف نہ صرف بلوچ قوم پرست ہیں بلکہ دو دن پہلے بی ایل اے کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر نے ایک بیان دیا کہ مولانا ہدایت الرحمن سے بلوچ قوم ہوشیار رہے، یہ دراصل وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو ان کی جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں 1970ء میں کیا تھا۔ مولانا ہدایت الرحمن کی مقبولیت نے سب کو خوفزدہ کر دیا ہے، بلوچ قوم پرست سیاسی پارٹیاں ہوں یا بلوچ شدت پسند، یہاں تک کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ بھی انہیں ایک ایسا اْبھرتا لیڈر تصور کر رہی ہے جو اب مقبولیت کی اس انتہا پر پہنچ چکا ہے کہ وہ ان کے قابو میں نہیں آ رہا۔ ہدایت الرحمن زمین پر بسنے والے انسانوں کے مسائل کی بات کرتا ہے، ان کے دْکھوں کا مداوا چاہتا ہے جبکہ قوم پرست اور بلوچ شدت پسند ایک خیالی جدوجہد میں بلوچوں کو اْلجھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہدایت الرحمن مقبول بھی ہے اور ان سب کی لیڈری کے لیے خطرہ بھی۔ کئی ماہ سے جیل میں ہے، وہ گزشتہ دنوں پیشی پر آیا تو اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ میری ضمانت نہیں ہو گی اور شاید میں بڑی عید بھی جیل میں گزاروں۔ اس لیے کہ میں کوئی نیازی، آفریدی یا کھیتران نہیں ہوں۔ یہ تین نام پنجابی، پشتون اور بلوچ رہنمائوں کی علامت کے طور پر اس نے لیے اور پھر کہا کہ مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ سے معافی مانگ لوں۔ میں معافی نہیں مانگوں گا۔ میں جانتا ہوں ہدایت الرحمن معافی کبھی نہیں مانگے گا۔ لیکن معافی پاکستان کے اس میڈیا کو مانگنا چاہیے جن کے نزدیک وہ ایک عام سی بھولی بسری آواز ہے۔ ایسی آوازیں نعمت ہیں، تعصب سے پاک، بلیک میلنگ سے دْور، خالص اور کھری۔ (بشکریہ روزنامہ92)