عدالت عظمیٰ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کی وزارت دفاع اور الیکشن کمیشن کی درخواست مسترد کردی ہے۔ البتہ تمام انتخابات ایک دن کرانے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو طلب کرلیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اگر سیاسی قیادت کسی ایک دن انتخاب کرانے کے لیے اتفاق کرلے تو اس کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے واضح کردیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق 14 مئی کو ہوں گے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا آئینی ذمے داری ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت پنجاب کی نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن آئین کے تحت اپنی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ اس مقدمے کی سماعت سے قبل 3 جرنیلوں نے عدالت عظمیٰ کے سربراہ اور انتخابی مقدمے کی سماعت کرنے والی بنج کے دو ججوں سے ملاقات کی اور دہشت گردی اور امن ا ومان کی صورت حال کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انتخاب کی تاریخ آگے بڑھانے کی درخواست کی تھی جو مسترد کردی گئی۔ فوج کے خفیہ ادارے کے سربراہوں یعنی ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی نے سیکریٹری دفاع کے ہمراہ چیف جسٹس کے کمرے میں عدالت عظمیٰ کو دہشت گردی کے واقعات اور خطرات سے آگاہ کیا تو عدالت عظمیٰ کے فاضل جج نے کہا کہ ہمیں اس سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت اس ملاقات کی تصدیق کردی اور اسے ان کے کیمرا بریفنگ قرار دیا۔ ان کے مطابق اٹارنی جنرل کے ذریعے فوج کے اہم ذمے داروں نے عدالت کے سامنے اپنی معروضات پیش کرنے کی درخواست کی تھی۔ ان سے کہا گیا کہ وہ کھلی عدالت میں پیش ہوں لیکن ان کے اصرار پر درخواست قبول کرلی گئی۔ اس واقعے کے بعد قوم کی نظریں عدالت عظمیٰ پر لگی ہوئی ہیں جہاں عدلیہ کی تقسیم کا تاثر بھی قوم کو تشویش میں مبتلا رکھے ہوئے ہے۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں 13 جماعتی اتحادی حکومت عدالت عظمیٰ کے خلاف طبل جنگ بجائے ہوئے ہے۔ یہاں تک کہ عدالت کے خلاف قومی اسمبلی سے قرارداد بھی منظور کرائی گئی۔ حکومت نے 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور انتخابی اخراجات کے لیے الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے سے انکار کردیا۔ الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ سے کہا کہ وزارت خزانہ فنڈز جاری کرنے کو تیار نہیں ہے، جبکہ وزارت دفاع نے سیکیورٹی کے لیے فوج اور رینجرز کی نفری فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔الیکشن کمیشن کے اس موقف پر عدالت عظمیٰ نے اسٹیٹ بنک اورمتعلقہ اداروں کو حکم دیا کہ وہ الیکشن کمیشن کو21ارب روپے فنڈ جاری کر کے تحریری رپورٹ جمع کرائیں ۔ حکومت نے قومی اسمبلی سے ’’منی بل‘‘ُ مسترد کرا کے اپنی دانست میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل کو روک دیا ۔ عدالت نے قومی اسمبلی میں’’ منی بل‘‘ مسترد ہونے کے بارے میں کہا کہ اس کے سنگین مضمرات ہوں گے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنی اکثریت کھو چکی ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے اس بارے میں مزید کوئی تبصرہ اور فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایک بار پھر حکم دیا ہے کہ وزارت خزانہ اسٹیٹ بینک اور متعلقہ ادارے الیکشن کمیشن کو اخراجات کے لیے مقررہ رقم یعنی21ارب روپے فوری طور پر جاری کریں ۔ا سی کے ساتھ عدالت عظمیٰ نے نئے انتخابات کی تاریخ کے لیے سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مذاکرات کی تجویز دے دی ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے اس بات کا خیر مقدم کیا کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اور پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدآصف علی زرداری سیاسی جماعتوں کی قیادت کے درمیان مذاکرات کا آغاز کر چکے ہیں ۔عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر تمام سیاسی قائدین کو جمعرات کو عدالت عظمیٰ کے رو برو پیش ہونے اور سب نے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ۔ سیاسی قائدین کی جانب سے اس امر کا اظہار کیا گیا کہ عید الفطر کے بعدمذاکرات شروع ہو جائیں گے ۔ لیکن عدالت عظمیٰ نے سیاست دانوں کو تاخیر کی اجازت نہیں دی اور کہا کہ آج ہی بیٹھیں اور عدالت عظمیٰ میں وقفہ کرتے ہوئے4 بجے شام تک سماعت ملتوی کر دی ۔ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اگر جمعہ کو عیدنہیں ہوئی تو سیاسی قیادت کے درمیان مذاکرات جاری رکھنے کے لیے عدالت عظمیٰ کی سماعت جاری رکھی جائے گی ۔ اس کارروائی سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سر براہ اور فاضل ججوں نے فوجی جرنیلوں کے دبائو کو قبول نہیں کیا ہے اور14مئی کو انتخابات کرانے کے بارے میں اپنا فیصلہ بر قرار رکھا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کے حوالے سے موجودہ صورت حال غیر معمولی طور پر سنگین محسوس ہوتی ہے ۔ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید ہمیشہ ہوتی رہی ہے ۔ لیکن سیاست دانوں کے مقابلے میں ججوں اور جرنیلوں کی حساسیت کے پیش نظر ایک استثنیٰ حاصل رہا ہے لیکن یہ استثناء اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے معاملے میں عدلیہ ، انتظامیہ اور فوج غیر جانبدار ہیں ۔لیکن بد قسمتی سے پاکستان کی سیاسی تاریخ اس کی تصدیق نہیں کرتی ۔ جب بھی سیاسی تصادم آئینی بحران میں تبدیل ہوا ہے تو اس کا غالب سبب اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا متنازعہ کردار ہے ۔ دعوئوں کے باوجود آئین کے تقدس کو مجروح کیاگیا ۔ اس ملک کی تاریخ یہ ہے کہ اقتدار اعلیٰ کے کیس کا فیصلہ آئین کو کرنا ہے ۔ تقسیم ہند کے فار مولے کے تحت آزاد پاکستان کا قیام مشروط تھا آئین ساز اسمبلی کی جانب سے آئین تیار کرنے کا ۔ لیکن پہلے آئین کی منظوری سے قبل قائد اعظم کے جانشین اور ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا ۔ آئین بنتے ہی اسے توڑ دیا گیا اور فوج نے براہ راست حکومت سنبھال لی ۔ آج بھی آئین کے باوجود ملکی سیاست پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بالا دستی بر قرار ہے ۔اس کا اعتراف سابق فوجی سربراہ جنرل باجوہ نے الوداعی خطاب میں کر لیا تھا ہے ۔ اب بھی یہ مداخلت جاری ہے ۔ سراج الحق نے بھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے ۔ اس لیے سیاسی قیادت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے لیے کھیل کے قواعد کا خود تعین کریں اور ان کی پاسداری کریں ، وہ خود کسی طاقت کے آلۂ کار بنیں ۔ اس کے بغیر آئین اور پارلیمان کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کا قائم نہیںہو سکتی ہے ۔