کشتی پر سوار مسافر صرف اندھے ہی نہ تھے وہ گونگے اور بہرے بھی تھے جبھی اُنہیں کشتی کے آہستہ آہستہ ڈوبنے کا احساس نہیں ہورہا تھا۔ اُس پر مستزاد یہ کہ احمق ملّاح کشتی کو خطرے سے باہر نکالنے کی کوشش کرتا وہ کشتی پر لیٹا ہُوا تھا اور چپّو سے پنکھے کے مزے لے رہا تھا اور ساتھ ہی یہ گنگنا بھی رہا تھا
’’نہ کسی کو فکرِ منزل‘ نہ کہیں سراغِ جادہ‘‘
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ‘‘
ملّاح کو شاید یہ گمان تھا بلکہ اُسے یہ زعم تھا کہ وہ چونکہ ایک اچھا شناور یعنی پیراک ہے چنانچہ کشتی کے غرقآب ہونے سے اُس کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا۔ ویسے بھی کشتی سرکاری ملکیت ہے ایک جائے گی تو دوسری آجائے گی۔ وہی ہُوا کہ کشتی بِالآخر غرقاب ہوگئی اور سارے مسافر بھی زیرِ آب ہوگئے۔ مسافر بیچارے تلاطم کی زد میں آکر خس وخاشاک کی طرح کبھی تو زیرِ آب ہوجاتے تھے اور کبھی سطح آب پر آجاتے تھے۔ لیکن ملّاح کو اُس کی تمام تر چالاکیوں سمیت ایک گھڑیال نے ہڑپ کرلیا تھا۔ یہ ایک خواب تھا جو مَیں نے پچھلے دنوں دیکھا تھا۔ مَیں نے ایسا خواب کیوں دیکھا تھا‘ وہ نابینا مسافر کہاں سے آئے تھے اور وہ کہاں جانا چاہتے تھے اور یہ کہ اِس خواب کے ذریعے مجھے کیا پیغام دیا جارہا تھا‘ بیدار ہونے پر مَیں نے بڑی دیر تک غور کیا مگر…
مَیں نے اپنے اِس خواب کا ذِکر جب اپنے ایک دوست سے کیا تب وہ یہ کہنے لگا کہ خواب واب کو چھوڑو اور آج کے اخبار میں شائع ہونے والا یہ مضمون پڑھو جو دلچسپ بھی ہے اور ایک پیغام بھی ہے۔ مضمون یہ تھا:
’’ظلم صِرف یہی نہیں ہے کہ آدمی کسی کو مارے پیٹے یا اَپنے ہاتھ میں تلوار یا کوئی آتشی اِسلحہ لے کر اُٹھ کھڑا ہو اَور علاقے میں قتل ِ عام شروع کردے۔ وہ سربراہِ مملکت جو اَپنی حماقت اَور نا اَہلی کی وجہ سے اَپنی رعایا کو نان ونفقہ سے محروم کردے‘ اُس کی بے تدبیری کے سبب علاج ومعالجے کی سہولت عوام کی دسترس سے دُور ہوجائیں اَور آمدو رفت پُر خطر ہوجائیں تو وہ حاکم بھی ظالموں میں شُمار ہوگا۔ اَیسا ہی ایک ظالم حُکمران ایک مُلک پر مُسلّط تھا۔ کسی زمانے کا ترقّی پزیر وہ مُلک اُس اَحمق اَور نکمّے حُکمران کے ہاتھوں میں آکر پسماندہ ہوگیا تھا۔ وہ مُلک جو اَناج اَور غذا میں کبھی خودکفیل تھا‘ اُس کے کارخانے چوبیس گھنٹے چلتے ہوئے نظر آتے تھے‘ اُس کی مصنوعات کا شہُرہ چاردانگ عالَم میں سنا جاتا تھا اَور اُس کے ماہر ومزدُور دُنیا بھر میں پھیلے ہُوئے نظر آتے تھے۔ اَب وہ مُلک آٹا‘ دال اَور چاول کے حصول میں کشکول پھیلائے رکھنے کے سبب ذلیل ہوتا ہُوا نظر آنے لگا۔ ایک وقت اُس مُلک پر اَیسا بھی آیا کہ بات کھانے پینے اَور علاج ومعالجے کی حد سے آگے نکل گئی۔ دوست نما دُشمن ممالک مذکورہ مُلک کے حکمرانوں کی مُٹھّی گرم کرکے وہاں کی عوام کی عزّتِ نفس سے کھیلنے لگے۔ نان و نفقہ کے حصول میں جب مشکل درپیش آئی تب فحاشی کو فروغ دینے کا سلسلہ چل نکلا۔ ظالم حُکمرانوں نے عدالتوں میں مُنصفوں کو بِٹھانے کے بجائے اَپنے تابع فرمان اَور جی حضوری کرنے والے ملازم بٹھا لیے۔ کمال حماقت یہ دیکھو کہ پورے ملک پر ظلمت کی چادر چھاگئی تھی اور اُس مُلک کے بزرگ اَور جوان اَپنے اُوپر ہونے والے جبر اَور ظُلم کو اَللہ کی مرضی سمجھ بیٹھے تھے۔ اُس اَنوکھے مُلک کے حکمران بادشاہ نے اپنی رعایا کا حال و احوال معلوم کرنے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سدّباب کرنے کی فکر کرنے کے بجائے اپنے دربار کی رونق کے گھٹ جانے کی فکر میں مبتلا ہوگیا۔ بادشاہ نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی رعایا مُدّتوں سے کوئی شکایت لے کر اُس کے پاس نہیں آتی ہے اَور اُس کا دربار بِالکل سُونا سُونا نظر آنے لگا ہے۔ وہ تخت پر بیٹھے بیٹھے ایک روز زیرِلب بڑبڑایا: ’’بِھیڑبھاڑ کے بغیر سنگھاسن پر بیٹھنے کا بھلا کیا مزا ہے‘ اِس سے تو بہتر تھا کہ مَیں اپنی آنکھوں کو دیکھنے کی زحمت دینے کے بجائے جاکر بستر پر آنکھیں مُوند کر لیٹ رہتا۔ فریادیوں کے بغیر نہ تو دَربار کی شان دِکھائی دیتی ہے اَور ناہی حاکم کا بول بالا نظر آتا ہے‘‘۔ اُس نے اَپنے وزیرِ ِاعظم‘ کو طلب کیا اَور کہا، ’’اَے میرے نمک خوار وزیرِ اعظم! کیا تم نے اِس سبب کو کبھی جاننے کی کوشش کی کہ میری رعایا مُجھ سے بہت زیادہ
خَوف زدہ ہے یا وہ میری طرزِ حُکمرانی سے اَزحد مطمئن ہے کہ میری حُکمرانی کو پورا ایک برس بیت گیا ہے اَور آج تلک کوئی ایک آدمی بھی کوئی فریاد اَور شکایت لے کر میرے حضور میں نہ آ یا۔ یہ ممکن ہے کہ میرے مُلک کے باسی مجھ سے اِختلاف رکھنے کے باوجُود میرے رُعب اَور دبدبے کی وجہ سے مُجھ سے شکوہ کرنے کی تاب نہ رکھتے ہوں اَور میرے خلاف نالش کا خیال اُن کے دِلوں میں نہ آتا ہو‘ لیکن تم اَحمق چاکروں سے چار چھے لوگوں کو کوئی نہ کوئی شکایت تو ضرور پیدا ہوتی ہوگی اَور وہ تمہاری کارگزاریاں میرے عِلم میں لانے کے خواہش مند ہوں گے۔ پھِر کیا سبب ہے کہ کوئی فریادی میرے دَربار میں دُہائی! دُہائی! کا نعرہ لگاتا ہُوا حاضر ہوتا دِکھائی نہیں دیتا ہے؟‘‘ یہ سوال کرکے سربراہِ مملکت اَپنے وزیرِاعظم کی طرف جواب طلب نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ وزیرِ اعظم کورنش بجاکر بولا: ’’حضورِوالا! ہم وُزرا اَور تمام اَہلکار آپ کے نمک خوار ہونے سبب آپ ہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ آپ جیسا رُعب داب ہمارا بھی طُرہ اِمتیاز ہے یا یہ کہہ لیجیے کہ آپ کا جاہ وجلال ہم نمک خواروں پر سایہ فگن ہے پھِرعوام اُلنّاس کو بھلا کیسے جُرأت ہوسکتی ہے کہ وہ کوئی شکوہ لے کر آپ کے رُوبرو آجائیں اَور دبار کا ماحول خراب کریں‘‘۔
حاکم بادشاہ کہنے لگا: ’’اَے نادان وزیرِ اعظم! تُوکیا اِس اَہم نکتے سے واقف نہیں ہے کہ شکوے اَور گِلے سُن کربادشاہوں کے جاہ وجلال میں اِضافہ ہوتا ہے اَور اُس کے دَربار کی وقعت بڑھ جاتی ہے۔ تُو نے کیا یہ بھی نہیں سُنا کہ پتّوں سے محروم درختوں کے اُوپر یا نیچے کوئی بھی بیٹھنا پسند نہیں کرتا ہے۔ چُنانچہ اَشد ضرورت ہے کہ کوئی اَیسی تدبیرکی جائے جس سے دَربار کی رونق بحال ہوجائے۔ تم اَور تمہارے ماتحت چاکروں اَور اَہلکاروں کو مابدولت کا یہ حُکم ہے کہ قومِ کو اُس سلوک سے دوچار کرو کہ وہ بلبلا اٹھیں۔ تمہارے اَیسا کرنے سے مجھے کامل یقین ہے کہ لوگ تمہاری شکایت لے کر میرے رُوبرو ضرور بِالضرور حاضر ہوںگے‘‘۔ وزیر ِاعظم نے سربراہِ مملکت کے اِس حکم کو تحریر کرکے اور ڈھول تاشے بجا بجا کر مُلک بھر کے کارندوںمیں پھیلا دیا اَور تمام رعایا کو تابعداری کی سخت ہدایت کی۔ نرالے حاکم کی بدمعاشی کا یہ نرالا تماشا دوسرے ہی روزرنگ لے آیا۔ شہر اَور مضافات میں قائم وزیروں اَور اَہلکاروں کے دفاتر کے گردو پیش میں لوگ باگ صبح صبح صَف بنائے کھڑے نظر آنے لگے۔ ایک تو یہ کہ یہ کام بڑا مُشکل تھا جو وزیروں اَور اَہلکاروں کو روزآنہ سَراَنجام دینا پڑتا تھا اَور دُوسرے یہ کہ وزیروں اَور حُکومتی اَہلکاروں کی تعداد اِتنی نہ تھی کہ وہ عوام کو جَلدی جَلدی نمٹا دیا کرتے۔ علاقے کے عوام کو اس سلوک کا بُرا تو نہ لگا لیکن اُس کام کے ختم ہوجانے کے بعد ہی وہ روزی روٹی کے حصُول کے لیے آزاد ہوسکتے تھے۔ عوام اُلنّاس آپس میں کانا پھُوسی کرتے اَور تاخیر اَور تعجیل کی گردان کرتے ہُوئے نظر آنے لگے۔ یہ عجیب تماشا شروع ہُوئے چار چھے روزہی گزرے تھے کہ لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم حاکم کے دَربار میں اُمڈ آیا۔ حاکم اَپنے حُکم کے ردِّعمل سے خُوب واقف تھا چُنانچہ وہ عوام کے سیلاب کو اَپنی طرف بڑھتے دیکھ کر ذرا بھی حیران نہ ہُوا۔ اِس سے پیش تر کہ آنے والوں کے نمائندے کچھ کہنے کے لیے اَپنی زبان کھولتے حاکم کہنے لگا: ’’ہوگئی ختم … مدہوشی تمہاری! آج پتا چل گیا … تم لوگوں کو کہ تمہارا کوئی سَردار بھی ہے اَور اُس کا دَربار بھی ہے! بتلاؤ کہ گوشہ گمنامی سے نکل کے … میرے پاس کیا لینے آئے ہو!‘‘ حاکم جب بول بک چُکا تب عوام کی طرف سے پیش ہونے والے تین نمائندے آگے بڑھے‘ تینوں نے جُھک کر حاکم کو آداب کہا‘ دو آدمی ذرا پیچھے ہوکر کھڑے ہوگئے۔ تیسرا کہنے لگا: ’’ہم آپ کو ظلِّ اِلٰہی یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانی کہتے ہیں اَور آپ سے شکوہ کرنے کو اَللہ تعالیٰ سے شکایت کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ ہم تو جناب کی خدمت میں یہ گزارش لے کر آئے ہیں کہ وزیروں اَور حکومتی اَہلکاروں کی تعداد عوام کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے جس کی بناپر آپ کے نئے فرمان پر عملدرآمد ہونے میں بہت تاخیر ہوجاتی ہے چُنانچہ جنابِ والا سے مودّبانہ اِلتماس ہے کہ وزیروں اَور اَہلکاروں کی تعداد بڑھادی جائے۔