افغان خواتین کے حقوق پر تشویش، چینی مسلم بچیوں بدترین ظلم؟

1010

بی بی سی نے ستمبر 2017ء میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ان دنوں حق اور انصاف کے بارے میں بات کرنا ایک خاصا مشکل کام ہے، خاص طور پر اس وقت جب آپ کی دلیل مسلمانوں کے حق میں جاتی ہو۔ اگر کوئی مسلمان اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرے تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی ہندو ایسا کرے تو اس سے نمٹنا ضروری ہو جاتا ہے آج کا بھارت اس دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والوں نے جناح کے بجائے گاندھی کو قتل کیا تھا کیونکہ ہندو ہوتے ہوئے وہ مسلمانوں کی طرفدار نظر آ رہے تھے۔ ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اب خبر آئی ہے کہ چین کے وزیر خارجہ کن گینگ نے کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق طالبان حکومت کی متعارف کرائی گئی حالیہ پالیسیوں کے اثرات کے بارے میں چین کو تشویش ہے۔ جی ہاں یہ وہی چین ہے جہاں مسلمان اویغور کمیونٹی کی خواتین کو مسلمان عقائد پر عمل کرنے کے جرم میں بے لباس، ہتھکڑی لگا کر انسان نما جانور کتوں اور دیگر جانور سامنے بے آبرو کرنے لیے چھوڑا جاتا ہے۔ اس دوران چند ایک کو اس وقت تک سزا دی جاتی ہے جب تک ان کی موت واقع نہ ہو جائے اور مظالم کرنے والوں سے کہا جاتا ہے بہت جلدی مرنے مت دینا جس قدر تڑپا سکتے ہو تڑپاتے رہنا۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق ازبکستان کے شہر سمرقند میں ایک علاقائی سربراہ اجلاس کے دوران کن گینگ کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں طالبان حکام کی جانب سے اقوام متحدہ سے منسلک خواتین پر کام کرنے پر پابندی عائد کرنے بعد عالمی سطح پر شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کن گینگ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین سمیت افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک کو افغانستان کی حالیہ پالیسیوں اور اقدامات کے افغان خواتین کے بنیادی حقوق پر ممکنہ اثرات پر تشویش ہے۔ واضح رہے کہ طالبان حکام نے 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے افغان خواتین پر متعدد پابندیاں عائد کی ہیں۔ طالبان حکام کی دلیل ہے کہ خواتین کی ملازمت پر پابندیوں میں توسیع کی وجہ افغانستان میں اقوام متحدہ کی سرگرمیاں ہیں۔
چین کے وزیر خارجہ کن گینگ سے مسلم دنیا اور دنیا بھر کے آزاد انسان یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا چین اویغور مسلم کمیونٹی کی نسل کشی نہیں کر رہا ہے؟ 2017ء برطانیہ میں شائع ہونے والی ایک باقاعدہ قانونی رائے جس پر ہر سال کام ہوتا ہے کے مطابق اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ چینی حکومت اویغور برادری کے خلاف نسل کشی کے جرائم میں ملوث ہے۔ جس کے بعد چین کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس قانونی رائے میں کہا گیا ہے کہ شمال مغربی چین میں بڑے پیمانے پر ایسے ثبوت ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی حکومت اس مسلم اقلیت (اویغور) کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ثبوت ظاہر کرتے ہیں بتایا گیا ہے کہ دورانِ حراست اویغور مسلمانوں کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے، عورتوں میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے اور اسقاط حمل کو فروغ دینے جیسے اقدامات اٹھائے گئے جبکہ اس کے علاوہ اویغور خاندانوں کے بچوں کو زبردستی ان کی برادری سے باہر منتقل کرنے کے ثبوت بھی ملے ہیں۔ انسانیت کے خلاف ہونے والے ان جرائم کے لیے خود چینی صدر شی جن پنگ ذمے دار ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایغوروں کو نشانہ بنانے میں ’ژی جن پنگ کی پالیسی کا دخل ہے قانونی رائے کے مطابق ’ایسے شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر سنکیانگ میں اویغوروں کے خلاف چینی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات دراصل انسانیت کے خلاف جرائم اور اس کمیونٹی کی نسل کشی کے مترادف ہیں‘۔
عالمی حقوق ایکشن گروپ، جو بیرونِ ممالک میں قانونی امور اور ورلڈ اویغور کانگریس اور اویغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ پر توجہ مرکوز کرتا ہے، نے عالمی قانونی ایکشن نیٹ ورک کی طرف سے اس رائے کو کمیشن کو ارسال کیا ہے، لیکن اس کے لیے کسی قسم کی کوئی ادائیگی یا فیس نہیں لی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اویغور کیمپوں میں منظم انداز میں خواتین کے ساتھ زیادتی کا انکشاف بھی ہو چکا ہے جہاں خواتین کو انسان اور جانور دونوں سے ریپ کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ سنکیانگ میں ایغوروں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات کی مستقل تردید کرتی رہی ہے۔ لیکن 100 صفحات پر مشتمل اس دستاویز کو، جسے ایلیسن میکڈونلڈ کیوسی سمیت لندن کے ایسیکس کورٹ چیمبرز کے سینئر بیرسٹرز نے مرتب کیا ہے، سنکیانگ میں چین کے اقدامات کے متعلق برطانیہ میں ہونے والی پہلی باقاعدہ قانونی سرگرمی سمجھا جا رہا ہے۔ ان دستاویزات میں زندہ بچ جانے والوں سے بطور گواہ لیے گئے ثبوت، مصنوعی سیاروں سے لی گئی تصاویر اور چینی حکومت کی جانب سے ریلیز کیے گئے کاغذات شامل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نسل کشی کو ثابت کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ عدالت کو یہ باور کروانا پڑتا ہے کہ کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے ان جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ یہ رائے اویغوروں کی ’غلامی ان پر تشدد، عصمت دری، زبردستی نس بندی اور ظلم و ستم‘ کی جامع تفصیلات بیان کرتی ہے۔
چین کے وزیر خارجہ کن گینگ کو تو اس بات کا علم ہو گا کہ کسی برادری کے اندر پیدائش کے عمل کو روکنے والے اقدامات ان سرگرمیوں میں شامل ہیں جو بین الاقوامی قانون میں نسل کشی کے طور پر شمار ہوتی ہیں اور یہ انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی اور قابل ِ سزا ہے۔ اس رائے میں چینی حکام کے ذریعہ آبادی پر قابو پانے کے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر بڑے پیمانے پر زبردستی نس بندی کا ثبوت پیش کیا گیا ہے۔ اس رائے کا اختتام ان الفاظ میں ہوتا ہے: ’ایسے قابل اعتماد مصدقہ شواہد موجود ہیں جن کے مطابق اویغور خواتین کو عارضی یا مستقل طور پر (زبردستی IUDs لگا کر یا ان کی بچہ دانی کو زبردستی نکال کر) بچے پیدا کرنے سے روکا جاتا ہے، اس کے علاوہ اس بات کے بھی ثبوت موجود ہیں کہ ان خواتین کا جبری اسقاط حمل کروایا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں (بین الاقوامی قانون) کے تحت یہ واضح طور پر نسل کشی کے مقصد سے کیے جانے والے اقدامات ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ان دنوں حق اور انصاف کے بارے میں بات کرنا ایک خاصا مشکل کام ہے، خاص طور پر اس وقت جب آپ کی دلیل مسلمانوں کے حق میں جاتی ہو۔