قومی سلامتی ایک نئے موڑ پر

1078

پاکستان میں گزشتہ سال سے دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک ماہ قبل، وائس آف امریکا نے آسٹریلیا میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے جاری کردہ سالانہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس رپورٹ میں کہا تھا کہ 2022ء میں پاکستان میں افریقی ملک برکینا فاسو کے بعد، دنیا بھر میں دہشت گردی سے اموات میں سب سے بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جولائی 2018ء کے بعد اس سال جنوری 2023ء سب سے مہلک مہینہ تھا۔ یہ پشاور کی مسجد پر ہونے والے گھناؤنے حملے کا مہینہ تھا جس میں 100 کے قریب جانیں گئیں، اور اس سے بھی زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ اگرچہ زیادہ تر حملے بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ہوئے ہیں، لیکن یہ حملے بلوچ باغیوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں۔ یہ ٹی ٹی پی ہے جو بعد میں ہونے والے بہت سے حملوں کے پیچھے ہے۔ فوج کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ تاہم حالیہ حملوں میں پولیس ایک سے زیادہ طریقوں سے سافٹ ٹارگٹ ثابت ہو رہی ہے۔ پشاور حملہ جس کے بعد پولیس کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے وہ ایک اہم معاملہ تھا۔ اقتصادی صورت حال کا تعلق سیکورٹی پالیسی سے وابستہ ہے۔
احسان اللہ ٹیپو، ڈائریکٹر خراسان ڈائری، ایک نیوز ویب پورٹل نے بتایا ہے کہ حالیہ حملوں نے خاص طور پر کے پی میں ایک طرز اختیار کیا ہے۔ تھانوں پر حملے کیے جاتے ہیں اور اس کے بعد دوڑتی ہوئی کمک پر دوسرا حملہ ہوتا ہے۔ مارچ میں لکی مروت میں ایسا ہی ہوا کہ صبح سویرے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا گیا۔ اور بعد میں ایک ڈی ایس پی کی سربراہی میں ایک دستہ پولیس اسٹیشن کی طرف جارہا تھا ایک آئی ای ڈی سے ٹکرا گیا، جس کے نتیجے میں سینئر پولیس افسر کے ساتھ ساتھ تین کانسٹیبل ہلاک ہوگئے۔ ان میں سے بہت سے حملوں میں جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، جیسے کہ رات کو دیکھنے والے چشمے جو امریکی افواج کے نکلنے کے بعد عسکریت پسندوں کے ہاتھوں آئے ہیں۔
ریاست کی جواب میں کیا منصوبہ بندی ہے۔ حالیہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس تک ایسا لگتا تھا کہ بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ جنوری 2023ء میں پشاور میں ہونے والی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک پریس ریلیز سامنے آئی جس میں قومی عزم کی بات کی گئی۔ پریس ریلیز نے مرکز اور کے پی کے درمیان بالواسطہ طور پر تناؤ والے تعلقات کی طرف اشارہ کیا تھا جس کی سربراہی حال ہی میں اسلام آباد میں پی ڈی ایم حکومت کی سیاسی حریف پی ٹی آئی کے پاس تھی۔ یہ بہتر کوآرڈی نیشن، یکساں پالیسی اور صوبے میں فرانزک لیبارٹری بنانے اور سی ٹی ڈی کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے بارے میں اعلانات کی ضرورت کی ایک تشریح ہو سکتی ہے۔
کچھ دن پہلے ہونے والی قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ اندرونی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے تھی، کیونکہ اس کے بعد کسی بڑے دہشت گرد حملے کی اطلاع نہیں آئی۔ البتہ اس میں ایک ہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کی بات کی گئی۔ اس آپریشن کے نفاذ کے لیے دو ہفتوں کے اندر سفارشات پیش کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ خبروں میں اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی کہ کون کون اس کمیٹی کا حصہ ہے اور اس کی میٹنگ کب ہوگی۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ پریس ریلیز ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی سابقہ پالیسی پر تنقید پر ختم ہوئی، یہ بتائے بغیر کہ یہ کس کی پالیسی تھی۔ جس کے لیے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو مورد الزام ٹھیرایا گیا ہے کہ اْس نے ٹی ٹی پی کو دوبارہ سرزمین ِ پاکستان پر کیوں بسایا؟ بہرحال یہ محض اندرونی سیاست ہے۔ اور اس کا تعلق معاشی حالات سے ہے۔
پاکستان کی گرتی معیشت فوجی اختیارات کے استعمال کو بھی محدود کر دیتی ہے۔ فوج چھاپے مار سکتی ہے اور دفاعی کارروائیاں کر سکتی ہے، لیکن اس کے پاس مسلسل تیز رفتار مہم کے لیے وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ متاثرہ علاقوں کے لوگ اب فوجی آپریشن کے خیال ہی سے پریشان ہیں جو ماضی میں ان کے لیے بے گھر اور تباہ کن مصائب کا باعث بنے ہیں۔ اور اس بات کا کھل کر اظہار کیا جا رہا ہے، جماعت اسلامی سمیت سیاسی جماعتیں بھی انہی خیالات کا اظہار کر رہی ہیں کہ فوجی آپریشن قابل قبول نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکورٹی فورسز کو انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز اور اس طرح کی کوششیں فی الوقت جاری رکھنی ہوں گی۔ یہاں تک کہ سرحد پار چھاپوں کی بات بھی، جو کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی اب دم توڑ چکی ہے۔ جو چیز اسے مزید پیچیدہ بناتی ہے وہ افغان طالبان کے ساتھ تعلقات ہیں جن کا کابل پر قبضہ ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں کا باعث بنا ہے۔ تاہم پاکستان اس معاملے پر افغان طالبان کو زیادہ زور دینے کے بجائے ان کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ بہت سے لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی سے مختلف ہیں۔ پاکستان میں سلامتی کی صورتحال ملکی سیاسی صورتحال کی طرح نازک ہے۔ موجودہ حالات کب تک برقرار رہ سکتے ہیں اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں ہے۔ اس دوران خبر ہے کہ حکومت قبائلی اضلاع خصوصاً وزیرستان میں ایک نئے فوجی آپریشن کی تیاری کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان صوبہ خیبر پختون خوا کی مجلس عاملہ نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ فوجی آپریشن سے گریز کرے کیونکہ اس کے مثبت اثرات برآمد نہیں ہوں گے۔ ماضی کے فوجی آپریشنوں میں نقصان کا ازالہ نہیں کیا گیا اور نہ قبائلی اضلاع کے ساتھ صوبہ خیبر پختون خوا میں اس کے ادغام کے وقت ترقیاتی فنڈز مہیا کرنے کے وعدے پورے کیے گئے، حکومت مسائل کا سیاسی حل تلاش کرے اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرے۔ جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے قومی اسمبلی کے بند کمرہ اجلاس میں آرمی چیف کی موجودگی میں کھل کر کہا کہ آپریشن مسائل کا حل نہیں ہے جس پر آرمی چیف نے یقین دلایا کہ قبائلی اضلاع میں فوجی آپریشن نہیں ہو گا بلکہ ٹارگٹڈ کارروائی کی جائیں گی تاکہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کا قلع ختم کیا جا سکے۔ خدا کرے کہ پاکستان میں امن قائم ہو جائے۔