خبر نہیں خبریں تھیں کراچی میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والی جماعت کے ابھی تک حلف نہ لے سکنے والے متوقع مئیر حافظ نعیم الرحمن کے حوالے سے، اخبار کھول کر دیکھیں تو حافظ نعیم الرحمن یتیم بچوں کو عید کی شاپنگ کراتے ہوئے، سستے و بچت بازاروں میں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرتے ہوئے الخدمت فاؤنڈیشن کے ساتھ فلاحی وسماجی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے، مہنگائی کے ماروں کو نارسائی کے گرداب سے بچانے میں سرگرداں حافظ، آدھی گنتی والے، ٹکڑا روٹی لے کر پورا بھتا (ٹیکس) دینے والے شہر کراچی کے حقوق کے لیے کوشاں حافظ، بحریہ ٹاؤن والوں کے لٹے ہوئے روپے واپس کروانے میں ہلکان حافظ، بلدیہ ٹاؤن کے جاں بحق افراد کے خاندان کے لیے مہرباں حافظ۔ یہاں حافظ، وہاں حافظ جہاں جہاں کوئی بے امان ٹھیرا وہاں نظر آیا حافظ نعیم الرحمن۔ اورنگی ٹاؤن کے عاصم امام پی ایم ٹی گرنے سے زخمی ہوں تو ان کے پاس سب سے پہلے پہنچنے والے حافظ نعیم الرحمن نہ صرف پہنچے بلکہ کے الیکٹرک کو للکارا عدالت میں درخواست دی اور عدالت سے کے الیکٹرک کے خلاف ہرجانے کا نوٹس لے کر لوٹے۔ اس شہر بے اماں میں ڈکیتی کی وارداتوں کے خلاف آواز اٹھانے والا حافظ نعیم الرحمن جس کرب سے یہ جوان لاشیں اٹھا رہا ہے میڈیا اور لائیو عوام گواہ ہیں غمزدوں کے کندھوں سے کندھا ملا کر خود جنازے پڑھاتا ہوا حافظ نعیم الرحمن جب باطل قوتوں کو للکارتا ہے ببانگ ِ دہل بالفاظ جالب کہتا ہے کہ ؎
دیپ جس کا اونچے محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
حافظ نعیم الرحمن کی اس للکار پر طاغوت کے شبستانوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے دلوں میں آگ لگتی ہے اور وہ کونوں کھدروں میں چھْپ کر سازشوں کے تانے بانے بننے لگتے ہیں ڈیجیٹل مردم شماری انہی سازشوں کا شاخسانہ ہے اس شہر کو پہلے بھی مردم شماری کے نام پر لوٹا اور خوب لوٹا گنتی آدھی گنی، روٹی دی تو ٹکڑوں میں اور ٹیکس، ریونیو کے نام پر بھتا لیا تو پاکستان بھر میں سب سے زیادہ، ایسے میں حافظ نعیم الرحمن ہی کو اس شہر کے حقوق کے لیے بولنا پڑا، کراچی کا نوحہ پڑھنے والوں نے کوٹے کے نام پر حقوق کے نام پر محض نوحے پڑھے ماتم کیا ’’نفیس بھائیوں‘‘ کی جماعت نے اہل کراچی کے سروں سے وار کر مزید بھتا لیا اور لاوارث کراچی کو لوٹ کر مزید دیوالیہ کر دیا اور اب ڈیجیٹل مردم شماری کے نام پر آدھی تعداد کو بھی مزید آدھا دکھا کر جن لوگوں کے ایجنڈے پر پاکستان کی شہ رگ کراچی کو محرومیوں میں دھکیلنے کا کام کیا جا رہا ہے انہی کے ’’ڈیجیٹل ہتھیاروں‘‘ کے ناقص ہونے کا یہ عالم ہے امریکی انتخابات میں ٹرمپ جیسے پاگل شخص کی نامقبولیت کے باوجود اس کی حکومت کا بننا وہ بھی ’’امریکا‘‘ میں خود ان ڈیجیٹل ہتھیاروں کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان ہے اور ہم تو پھر ’’کراچی‘‘ کی بات کر رہے ہیں کہ جہاں بلدیاتی انتخابات میں واضح ترین اکثریت کے باوجود جماعت اسلامی کے ووٹ بینک پر شب خون ماردیا گیا، اہل کراچی گواہی دے رہے ہیں گلی محلے سے آ، آ کر کہہ رہے ہیں ہم نے تو آپ کو ووٹ دیا تھا آئیں ناں سنبھالیں ناں اپنے دفاتر، سوئی گیس والے بہت تنگ کر رہے ہیں جماعت کہاں ہے؟، اسٹریٹ کرائم بڑھ رہے ہیں حافظ نعیم الرحمن کہاں ہے، ہم بتا بتا کر تھک گئے ہیں کہ حلف نہ اٹھانے کے باوجود بھی مقدور بھر وسائل سے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے حافظ آپ کے ساتھ ہی کھڑا ہے ابھی اسے یہ اختیار تک نہیں کہ پولیس، کے ایم سی اور دیگر اداروں کو بیک جنبش ِ قلم عوام کی بروقت خدمت پر کاربند کرائے مگر الخدمت اور جماعت اسلامی کے ان وسائل کے ذریعے (جو عوام کے جماعت اسلامی پر اعتماد کا اظہار ہیں) مقدور بھر گلیاں، سڑکیں، چوراہے درست کرنے کروانے میں لگے ہوئے ہیں مہنگائی کے جن کے خلاف جہاد کرنے اور کرانے میں لگے ہوئے ہیںکھلے ہوئے گٹر میں گر کر جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کی داد رسی ہو یا نیوکراچی میں فائر فائٹر کی شہادت حافظ نعیم الرحمن آگے ہی آگے کھڑے ہیں شہریوں کو بھی یقین ہے کہ یہی
ہمارے غموں کا حکیم ہے بس اسے اپنے مطب میں بیٹھ کر حکمت کی مسند سجانے دو اپنے شبستانوں میں بیٹھ کر چند لوگوں کو ٹھنڈے پیٹوں سحریاں افطاریاں کروانے والے، بھوک سے بلکتے، ڈکیتیوں سے سسکتے ہوئے شہر کی خواتین کو چاند رات پر چوڑیوں، مہندی کے لطیفوں کا اعلان کرنے والے لرز کر رہ جائیں گے حافظ نعیم الرحمن کی آمد سے، اس کے نام سے لرزاں اداروں کا دھواں نکلنا شروع ہو جائے گا جو ابھی تک لرز رہے ہیں ایک نہتے حافظ سے، جب حافظ نے عہدے کا حلف اٹھا لیا تو نعمت اللہ خان صاحب اور عبدالستار افغانی کے اس جانشین سے ربّ العالمین وہ سب کام ضرور لے گا جن کاموں کے لیے اس ربّ العالمین نے اسے کامیابی عطا فرمائی ہے شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک اس ربّ نے اہل کراچی کے درد کا درماں بننے کے لیے حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی کو واضح ترین برتری عطاء فرمائی اور اس برتری پر لرزتے ہوئے باطل پرستوں کی ریشہ دوانیوں کو بھی کھول کر سب کے سامنے واضح کر دیا تاکہ اہل کراچی اپنے دشمنوں اور دوستوں کے مابین فرق کر سکیں یہ جان لیں کہ کراچی میں ان کا پٹی ہوئی آئی کو چند ووٹ دینا بھی وبال جان بن گیا کہ وہ کراچی والوں سے ووٹ لے کر کراچی کے دشمنوں کے ساتھ الحاق کر بیٹھے آج وہ چند ووٹ بھی جماعت اسلامی ہی کو دیے ہوتے تو اس شہر کا یوں مذاق نہ بنتا دھاندلی کرنے والوں کو بھی سوچنا پڑتا کہ بس اس سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ اہل کراچی اپنے ہی حقوق کے لیے تو کم از کم اتنا زیادہ ساتھ دے دیتے کہ گیارہ بارہ نشستوں کے متنازع ہونے سے بھی حافظ نعیم الرحمن کو مئیر بننے سے کوئی نہ روک پاتا۔ پھر بھی اس صورت حال کے باوجود حافظ نعیم الرحمن گو کہ دفتر میں نہیں بیٹھا مگر آج بھی چوکوں میں چوراہوں پر جدوجہد تیز ہو کی عملی تفسیر بنا اس طرح نظر آتا ہے کہ اس کی ’’اعلان گمشدگی‘‘ کی فیک اور بھونڈی پوسٹ چلانے والے اپنے ہی ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے چبا رہے ہیں کہ یہ کیا کر دیا کہ اس پوسٹ کے جواب میں تو حافظ نعیم الرحمن اور نکھر کر اہل کراچی کے ماتھے پر مثل جھومر بن کر سج گیا ہے کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ
بابا والے، بی بی والے،
پی پی اور پی ٹی والے
ڈرتے ہیں اور لرزاں ہیں
ایک نہتے حافظ سے۔