مناجات کے سلسلے تیرے وصال تلک

810

کل ایک تصویر نظر سے گزری مردوں کے لیے تو یہ آئے دن کا مشاہدہ ہے مگر خواتین عمومی طور پر تدفین کے مراحل کے وقت موجود نہیں ہوتیں تو ان کے لیے اس تصویر میں بہت زیادہ انہونی سی بات تھی باوجود اس کے کہ سب جانتے ہیں کہ مرنے والوں کے لیے جو قبر تیار ہوتی ہے وہ گڑھے کی مانند ہوتی ہے اور بلحاظ جسامت بہت محدود سی جگہ ہوتی ہے جس میں مردہ رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی جاتی ہے۔
وہ تصویر بھی ایسی ہی تھی سفید براق کفن پوش مردہ ایک ایسے کچے سے گڑھے میں لٹایا گیا تھا جس کے چہار اطراف بس ایک دو بالشت کے فاصلے سے اس گڑھے کی دیواریں تھیں یہ دیکھ کر جھرجھری سی دوڑ گئی کہ ہمیں تو ہمارے آرام دہ بستروں پر بھی کروٹ بدلنے کے لیے اضافی جگہ درکار ہوتی ہے جن افراد کو ٹرین پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا وہ جانتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی ’’برتھ‘‘ پر سونا کس قدر دشوار لگتا ہے جی چاہتا ہے جلدی سے سفر ختم ہو اور اپنے کشادہ بستر پر آرام سے استراحت فرمائی جائے اور کہاں یہ ابدی قیام گاہ اور اس قدر بے آرام سی جگہ؟؟
ہم دنیا کی عارضی قیام گہوں کو سجانے سنوارنے اس کی تزئین و آرائش اور آرام دہ طرز تعمیر سے لیکر طرزِ رہائش تک کے لیے انتہائی حدوں تک کوشاں رہتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ عمریں گزار دیتے ہیں ان عارضی قیام گہوں کی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول کے لیے، اہل اقتدار ستر کلفٹن، نواب ہاؤس، سرے محل، ایون فیلڈ، رائے ونڈ محل، بلاول ہاؤس، بنی گالہ سمیت ریسٹ ہاؤسز، ریزورٹس، فارم ہاؤسز، بنگلوز، اور ڈریم لینڈز کی تیاریوں میں نجانے کتنے انسانی حقوق تلف کر جاتے ہیں، کتنی انسانی لاشیں گراتے ہیں، کتنوں کے ارمانوں اور مسرتوں کا خون کرتے ہیں، کتنی محلاتی، سلطانی ایوانی، اداراتی، فرقہ وار اور گروہی سازشیں کرتے ہیں تو تب جاکر یہ پر آسائش رہائش گاہیں تیار ہوتی ہیں پھر ان شاندار محل سراؤں میں سے کبھی اسکندر مرزا رسوا ہو کر محض تن کے کپڑوں میں ہی رخصت ہو جاتے ہیں تو کہیں
بھٹو کی میت کو پھانسی کے بعد آخری مرتبہ آنا بھی نصیب نہیں ہوتا، کہیں بے نظیر بھٹو کی میت بصورت حسرت و یاس گڑھی خدا بخش منتقل ہو جاتی ہیں تو کبھی کلثوم نواز کا جنازہ اٹھتا ہے اور محل سرا اپنی مالکن کو بے دردی سے رخصت کرکے خود اسی جگہ گڑی رہتی ہے۔ ان گنت مثالیں ہیں ان گنت زمانوں کے ان گنت انسانوں کی یہ تو ہماری یاد داشت میں اتنی ہی ہیں مگر یہ کائنات بھری پڑی ہے ان مثالوں سے کہ سجی سجائی عارضی قیام گہوں میں آج نہ بنانے والے ہیں اور نہ ہی انہیں بسانے والے وہاں کے مکین ہیں بلکہ وہاں تو کوئی اور ہی افراد ہیں جو شان سے براجمان ہیں اور ان پر آسائش رہائش گاہوں کو بنانے والے بیش تر لوگ انہی چھوٹی چھوٹی قبروں میں متمکن ہیں جن کی بیرونی حالت زار شاہجہاں کی محبت بھرے تاج محل کی عمارت کی نقل میں اگر اچھی بنا بھی دی گئی ہے تو اندر کی گرمی، سختی، وحشت، تاریکی اور تنہائی کیسے دور ہوگی کروڑوں، کھربوں مردے ہیں جو آج بھی ان تنگ و تاریک قبروں میں اپنے پیاروں کو چلاچلا کر پکار رہے ہیں مگر ان کے پیارے تو ان کی شاندار طرز تعمیر پر مبنی محل سراؤں میں ان کی طرز تعمیر پر داد وصول کرنے میں مصروف ہیں وہ انہی کی طرح مزید ’’محنت‘‘ کر رہے ہیں اپنے نئے محل بنانے کے لیے۔
قدرت کا نظام ہی ایسا ہے جانے والوں کی صدا باقی رہ جانے والوں تک نہیں پہنچ پاتی اگر پہنچ جائے تو خیر و شر کا کھیل ہی ختم ہو جائے شر نے خیر کو بھٹکانے کا جو چیلنج ربّ العالمین کو دیا تھا وہ بھی ختم ہو جائے سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں تو پھر واقعی روز روشن کو ہی ہوگا ناں ابھی تو یہ ہلکی پھلکی سی تصویری جھلکیاں، آفات خداوندی میں موجود چھوٹی چھوٹی سی جھڑکیاں ہی اگر اثر کر گئیں تو شاید معاملات سنور جائیں مگر ہوتا یہ ہے کہ ادھر تصویر سامنے سے ہٹی، جھڑکی ختم ہوئی تو گویا رات گئی بات بھی چلی گئی ان باتوں کو ان یادوں کو ان جھڑکیوں اور عبرت آمیز منادیوں کو عارضی قیام گہوں سے ابدی قیام گہوں تک کے لیے بار آور، ثمر آور بنا کر محیط کرنا ہے تو ان کو بار بار یاد کیجیے، ان کی تذکیر کیجیے جس طرح اپنے پسندیدہ گانے، فلمیں، ڈرامے سین، تصاویر، موویز بار بار دہرا، دہرا کر دیکھتے اور سنتے ہیں من پسند جگہوں پر بار بار جاتے ہیں من پسند کھانوں کو بار بار کھاتے ہیں تو ان دل آزار جاں سوز جاں گسل وسبق آموز واقعات، تذکرات اور احساسات کو بھی حرزِ جاں بنا لیجیے تاکہ اس ابدی و دائمی گھر میں دوزخ کے ہیٹنگ سسٹم کو جنت کے کولنگ سسٹم میں بدلنے کے جگاڑ، اوزار اور ہتھیار استعمال کر سکیں اس کی پر سکوت وحشت کے ساتھی قرآن، نماز، ذکر اذکار اور درود شریف کی صورت جمع کر سکیں۔ کسی کے پیاروں کا انتقال ہونے پر اسے تسلی دیتے ہوئے مت کہا کریں کہ ’’بس اب انہیں یاد کرکے رونا چھوڑو اور ان کے لیے اچھے اچھے اعمال کماؤ‘‘۔
انسانی فطرت ہے کہ جتنا وہ غم میں ربّ العالمین کے نزدیک ہوتا ہے اتنا خوشیوں میں نہیں ہوتا آنکھ میں اشک تب ہی آتے ہیں جب دل میں درد ہوتا ہے اور یہ درد ہی وہ مقبول دعا، مناجات واعمال کروا لیتا ہے جو اک بے درد وبے حس دل نہیں کر پاتا آپ تسلی دیجیے ماتم سے روکیے سینہ کوبی و بلند آہنگ آہ و زاری پر ٹوکیے مگر لِلہ رونے سے مت روکیے آج ہم نے رونا ہی تو چھوڑ دیا ہے کھل کر رونا، دل ودماغ کی رگوں اور جسم وروح کی گہرائیوں اور گیرائیوں کے ساتھ رونا، اپنی بدمست بدحالی پر رونا، اپنے چلے جانے والوں اور باقی رہ جانے والوں کی عاقبت نااندیشی پر رونا، اپنے جرائم و گناہوں کی لمبی فہرستوں پر رونا چھوڑ دیا ہے اسی لیے کفن پر لگے داغ دھل نہیں پاتے کہ دجالی میڈیا کے آلہ کار کہلانے والے کہتے ہیں کہ ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔
انہیں بتا دیجیے کہ کفن کے داغ بالکل بھی اچھے نہیں ہوتے وہ عذاب لاتے ہیں ان داغوں کو پیچھے رہ جانے والوں کے آنسو صاف کرتے ہیں، طویل و مختصرگرم و سرد راتوں میں ان کی بے قرار مناجات و عبادات ہیں جو نہ صرف چلے جانے والوں کے کفن کے ان داغوں کو صاف کرتی ہیں بلکہ انہیں مانگنے والوں کے اپنے کفن کو مقدور بھر صاف رکھنے کی کوشش کے ساتھ ان کی قبروں کو روشن منور اور فراخ بھی کرتی ہیں دیر نہ کیجیے ہماری زندگی کے اس رمضان المبارک کا آخری عشرہ، آخری راتیں جاری ہیں روئیے گڑگڑائیے مانگیے اور اس رونے گڑگڑانے اور مانگنے کے سلسلے کو اگلے تین سو پینتیس ایام پر محیط کر دیجیے اس یقین کے ساتھ کہ میری، آپ کی اور ہم سب کے جانے والوں مغفرت کا چشمہ یہیں سے پھوٹے گا شفاعت محمدؐ مل کر رہے گی سنت محمدؐ کی پیروی میں راتوں کو جاگ جاگ کر رو رو کر مانگنا معمول بنا لیجیے صرف رمضان کے ایام و لیل ہی میں نہیں بلکہ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک تاکہ یہ عادت ہماری اور ہمارے پیاروں کی آسان موت، آسان حساب اور ڈائریکٹ جنت الفردوس میں داخلے کو آسان بنا دے اور ہمیں ہمارے ربّ العالمین اور محبوب ربّ العالمینؐ سے ملا دے۔