سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والا بھارت مسلمانوں سے جڑی ہر چیز کو مٹانے کی مہم پرہے، حقیقت صرف یہی ہے کہ بھارت آج انتہا پسند ہندو ریاست ہے اور اسی پس منظر اور اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق مودی حکومت آگے بڑھ رہی ہے۔ تازہ ترین واردات میں مودی حکومت کی وزارت تعلیم کے محکمہ ’’نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ نے نصابی کتابوں سے اپنے پہلے وزیر تعلیم اور تحریک آزادی کے رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کا نام بھی حذف کر دیا ہے۔ جس کی خبر کے مطابق تفصیلات یہ ہیں کہ سیاسیات سے متعلق نصابی کتاب کے پہلے باب کا عنوان ہے آئین، کیوں اور کیسے بنا کے باب میں ایک سطر میں ترمیم کے ساتھ اور جہاں دستور ساز اسمبلی کی کمیٹی کے اجلاسوں میں مولانا آزاد کی شمولیت اور ان کے اہم کردار کے لیے ان کا نام کا درج تھا، اب اسے ہٹا دیا گیا ہے۔ تازہ نظرثانی شدہ لائن اس طرح ہے، عام طور پر، جواہر لال نہرو، راجندر پرساد، سردار پٹیل یا بی آر امبیڈکر ان کمیٹیوں کی صدارت کیا کرتے تھے۔ اس سے پہلے اس فہرست میں آزاد کا نام بھی شامل تھا۔
مولانا آزاد تحریک آزادی کے دوران اپنی جدوجہد کے ساتھ خاصے متحرک رہے ہیں۔ وہ تقسیم ہند کے بھی سخت مخالف تھے اور انہوں نے دو قومی نظریے کی سخت مخالفت کی تھی۔ مولانا آزاد علم ادب اور صحافت پر بڑا اور منفرد مقام رکھتے ہیں، آپ عربی، اردو، فارسی اور انگریزی کے بڑے دانشور تھے، اس کے ساتھ آپ نے ہی 1946 میں آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے بھارت کی نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں کانگریس کی قیادت کی تھی اور اس میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ مسلسل چھے برس تک کانگریس کے صدر کے طور کام کے دوران انہوں نے برطانوی کابینہ مشن کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک وفد کی قیادت بھی کی تھی۔ لیکن ایسا شخص بھی متعصب ہندو حکومت کے نشانے پر ہے اور صرف یہی نہیں اسی نصابی کتاب سے بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر کے مشروط الحاق سے متعلق حوالے بھی حذف کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح پہلے نئی نصابی کتابوں سے مغلیہ تاریخ پر اسباق ختم کیے جا چکے ہیں۔ جن میں ’مغل دربار‘ سمیت فیض احمد فیض کے اشعار پر مبنی دو پوسٹر بھی شامل ہیں۔ یہ تبدیلی دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کی تاریخ اور سیاست کی درسی کتابوں میں کی گئی تھیں۔ اس میں گیارہویں اور بارہویں کے نصاب سے غیر وابستہ تحریک، سرد جنگ کا زمانہ، افریقی اور ایشیائی خطے میں اسلامی سلطنت کا عروج، مغل دربار کے کرانیکل، اور صنعتی انقلاب جیسے اہم موضوعات نکال دیے گئے ہیں۔ جبکہ دسویں جماعت کے نصاب سے فیض احمد فیض کی دو نظموں کے چند سطور پر مبنی پوسٹرز کو حذف کردیا گیا ہے اس سے قبل 2017ء میں بھی مہاراشٹر کے کئی اسکولوں میں مغلوں کی تاریخ کو نصاب سے مکمل طور پر ہٹا دیا گیا تھا اور ان کے بجائے نصاب مکمل طور پر چھترپتی شیواجی پر مرکوز کردیا گیا تھا۔ مودی کی بی جے پی حکومت کی سیاست کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر مبنی رہی ہے۔ گجرات میں مسلم کْش فسادات اور بابری مسجد مسمار کرنا بھی اسی کا کارنامہ رہا ہے، انہوں نے اس سے قبل نئی دہلی میں روہنگیا اور بنگلادیشی تارکین وطن مسلمانوں کی دکانوں اور املاک کو مسمار کیا اور اس کے بعد دارالحکومت کے 40 گائوں کے مسلم نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا، معروف شہر الہٰ آباد کا نام تبدیل کرکے پریا گراج رکھ دیا گیا تھا۔ اسی طرح دارالحکومت دہلی کے تاریخی مغل گارڈن کا نام بدل کر اسے ’’امرت ادیان‘‘ کر دیا گیا تھا۔ ممبئی کے ملاڈ علاقے میں واقع معروف ٹیپو سلطان پارک سے بھی یہ نام حذف کرکے ہندو نظریات کے معمار رہنما دین دیال اپادھیائے رکھ دیا تھا۔ دہلی کی مشہور اورنگ زیب روڈ کا نام بھی بدل چکا ہے۔
2017ء میں بھی مہاراشٹر کے کئی اسکولوں میں مغلوں کی تاریخ کو نصاب سے مکمل طور پر ہٹا دیا گیا تھا اور ان کے بجائے نصاب مکمل طور پر چھترپتی شیواجی پر مرکوز کردیا گیا تھا۔ مودی کی بی جے پی حکومت کی سیاست کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر مبنی رہی ہے۔ گجرات میں مسلم کْش فسادات اور بابری مسجد مسمار کرنا بھی اسی کے کھاتے میں ہے۔ اب آج کل بی بی سی بھی مودی حکومت کے نشانے پر ہے اور اس کے خلاف غیر ملکی زرمبادلہ کے ضابطوں کی مبینہ خلاف ورزی کی تفتیش دوبارہ شروع کردی گئی ہے۔ چند ماہ قبل دہلی اور ممبئی کے اس کے دفاتر کی ٹیکس حکام نے تلاشی لی تھی۔ تفتیشی ایجنسی نے بی بی سی سے اپنی آمدن اور خرچ کی تفصیلات اور مالیاتی تفصیلات پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔ جس کا پس منظر یہ ہے کہ بی بی سی نے اسی سال جب وزیر اعظم نریندر مودی کے حوالے سے ایک ڈاکیومنٹری نشر کی تھی کہ جب گجرات فسادات میں، جس میں 2 ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوئے تھے، اس وقت کے وزیر اعلیٰ مودی کے کردار اور حالات پر مبنی اس ڈاکیومنٹری پر مودی حکومت نے سخت رد عمل دیا تھا اور پھر بعد میں اس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی سرکار مسلم تہذیب وتمدن، تاریخ اور ثقافت کو مٹانے کے ایجنڈے پر ہے اور مودی حکومت اسے صرف ہندوئوں کا ہندوستان دیکھنا چاہتی ہے۔ وہاں اب غیر ہندو، خاص طور پر مسلمان بن کر جینا مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں مسلمان ہر عنوان سے نشانے پر ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی طور پر ماضی کے مقابلے میں تیزی سے انہیں بے وقعت اور نفرت انگیز بناکر گن گن اور چن چن کر ان کی شناخت ختم کی جارہی ہے۔ معروف بھارتی مصنفہ اور متعدد ناولوں کی انعام یافتہ اور سیاسی کارکن ارون دھتی رائے ماضی میں کہہ چکی ہیں کہ ’’مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے، بھارت میں مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کْشی کی طرف بڑھ رہی ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’بھارتی میڈیا بھی، سارا نہیں لیکن اس کا ایک حصہ نسل کْش میڈیا بنا ہوا ہے اْن جذبات کی وجہ سے جن کو ابھارنے کا وہ کام کررہا ہے‘‘۔
بھارتی پارلیمان کے رکن اسدالدین اویسی نے مودی حکومت کے اقدامات پر چین کے بھارت کی شمالی مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے گیارہ مقامات کے ناموں کو تبدیل کرنے کا علان کے پس منظر میں اس فیصلے پر اپنی تنقید میں درست کہا ہے کہ ’’ایک طرف مودی حکومت مغلوں کو این سی ای آر ٹی کے نصاب سے مٹا رہی ہے، تو دوسری طرف چین، جس کے ساتھ وزیر اعظم مودی انڈونیشیا میں ہونے والے جی 20 اجلاس کے دوران ہاتھ ملاتے ہوئے کانپ رہے تھے، ہمارے حال کو مٹا رہا ہے‘‘۔ ایسے میں ضرورت جہاں اس امر کی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے آپ کو متحد کریں اور ایک طاقت و قوت بن کر مزاحمت کی علامت بنیں وہاں پوری دنیا کے مسلم حکمرانوں کو بھی ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف متوجہ ہونے اور بھارت پر اپنا دباو ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے مسلمان اپنے آپ کو تنہا محسوس نہ کریں۔