آج ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

817

محترم جناب اشفاق صاحب کے حوالے سے پوسٹ کیا گیا ایک تراشہ پیش ِ خدمت ہے جس میں ہم سب کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں ایک بہروپیا آیا اور اس نے کہا، میں بہروپیا ہوں اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں کہ ’’آپ کو جو اپنے علم پر بڑا ناز ہے‘‘ کو بھی دھوکا دے سکتا ہوں میں بھیس بدلوں گا آپ پہچان کر دکھائیں، عالمگیر نے کہا! منظور ہے اس نے کہا حضور آپ وقت کے شہنشاہ ہیں۔ اگرآپ نے مجھے پہچان لیا تو میں آپ کے دین دار ہوں گا لیکن اگر آپ مجھے پہچان نہ سکے اور میں نے ایسا بھیس بدلا تو آپ سے پانچ سو روپیہ لوں گا۔ شہنشاہ نے کہا شرط منظور ہے۔ ایک سال کے بعد جب اپنا لاؤ لشکر لے کر اورنگزیب عالمگیر ساؤتھ انڈیا پہنچا اور مرہٹوں پر حملہ کیا تو وہ اتنی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بند تھے کہ اس کی فوجیں وہ قلعہ توڑ نہ سکیں لوگوں نے کہا یہاں ایک درویش ولی اللہ رہتے ہیں ان کی خدمت میں حاضر ہوں۔ شہنشاہ پریشان تھا بیچارہ بھاگا بھاگا گیا ان کے پاس۔ سلام کیا اور کہا، آپ ہماری مدد کریں میں کل اس قلعے پر پھر حملہ کرنا چاہتا ہوں تو فقیر نے فرمایا! نہیں کل مت کریں، پرسوں کریں اور پرسوں بھی بعد نماز ظہر۔ اورنگزیب نے کہا جی بہت اچھا! چنانچہ اس نے بعد نماز ظہر جو حملہ کیا بہت زور دار اور بہت جذبے سے کیا، ساتھ فقیر کی دعا بھی تھی، اور ایسی دعا کہ قلعہ ٹوٹ گیا اور فتح ہو گئی۔ مفتوح پاؤں پڑ گئے۔ بادشاہ سیدھا درویش کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور یہ سب آپ ہی کی بدولت ہوا ہے، اس فقیر نے کہا، نہیں جو کچھ کیا اللہ ہی نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی خدمت میں دو بڑے بڑے قصبے دیتا ہوں اور آئندہ پانچ سات پشتوںکے لیے ہر طرح کی معافی ہے۔ اس نے کہا، بابا ہمارے کس کام کی ہیں یہ ساری چیزیں۔ ہم تو فقیر لوگ ہیں تیری بڑی مہربانی۔ اورنگزیب نے بڑا زور لگایا لیکن وہ نہیں مانا۔ اورنگزیب اپنے تخت پر آ کر بیٹھ گیا جب وہ ایک فرمان جاری کر رہا تھا عین اس وقت وہی فقیر آیا تو شہنشاہ نے کہا، حضور آپ یہاں کیوں تشریف لائے مجھے حکم دیتے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا، اس نے کہا، نہیں شہنشاہ معظم! اب یہ ہمارا فرض تھا ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو جناب عالی میں وہی کندن بہروپیا ہوں جو پہلے آپ کے دربار میں آیا تھا۔ میرے پانچ سو روپے مجھے عنایت فرمائیں۔ شہنشاہ نے کہا، اچھا وہ تم ہو، کندن نے کہا ہاں میں وہی ہوں جو آج سے ڈیڑھ برس پہلے آپ سے وعدہ کر کے گیا تھا۔ اورنگزیب نے کہا، مجھے پانچ سو روپے دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں، جب میں نے آپ کے نام اتنی زمین کر دی تھی، جب میں نے آپ کی سات پشتوں کو یہ رعایت دی تھی کہ اس ملکیت میں جہاں چاہیں جس طرح چاہیں رہیں تو آپ نے اس وقت کیوں انکار کر دیا؟۔ یہ پانچ سو روپے تو کچھ بھی نہیں۔ اس نے کہا، حضور بات یہ ہے کہ جن کا روپ دھارا تھا، ان کی عزت مقصود تھی، وہ سچے لوگ ہیں ہم جھوٹے لوگ ہیں، یہ میں نہیں کر سکتا کہ روپ سچوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی کروں‘‘۔
یہ واقعہ جس کو اشفاق صاحب نے بیان کیا اس میں کتنی تاریخی سچائی ہے، اس میں پڑے بغیر میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بر ِ صغیر انڈو پاک میں انگریزوں کے مستقل قبضے سے قبل اور پاکستان بننے سے پہلے پہلے تک نہ جانے کتنے لاکھ مسلمانوں نے جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں محض ’’اسلام‘‘ کے نام پر دیں۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل قربانیاں مانگنے والے واقعتا کتنے سچے اور مخلص تھے لیکن یہ بات طے ہے کہ اس وقت سے لیکر آج تک بر صغیر انڈو پاک کے مسلمان اسلام کے اتنے سودائی اور دیوانے ہیں کہ اگر اسلام کا نام لیا جائے تو انہیں اس بات کی پروا کبھی نہیں رہی کہ کہنے والا مخلص ہے یا منافق، اس کے پیچھے بالکل اسی طرح ہو لیتے ہیں جیسے شمع کے شعلے کے گرد پروانے۔ پاکستان کبھی بن ہی نہیں سکتا تھا جب تک اس میں ’’اسلامی ٹچ‘‘ نہ لگایا جاتا۔ وہی ٹچ آج کے دن تک ہر تحریک چلانے والا مسلسل لگاتا چلا آ رہا ہے اور کردار کا بالکل ننگا ہو جانے کے بعد بھی لوگوں کا یہ عالم ہے کہ وہ ننگا کردار دیکھنے
کے باوجود بھی اس کے گرد مثل ِ پروانہ جمع ہو کر اس کے لیے جل مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کا بن جانا، مشرقی پاکستان میں پاکستان کا نام لیکر اپنے ہی ہاتھوں بنگالی مسلمانوں کا قتل ِ عام کرنا، ایوب خان کے زمانے سے تا حال کسی نہ کسی حوالے سے اسلام کا نام استعمال کر کے حکمرانوں کے خلاف تحارک چلانا۔ ہر حکمران کا بسم اللہ سے اپنی تقاریر کا آغاز کر کے کچھ کا والناس تک پہنچ جانا۔ دفاعِ ختم ِ نبوت کے نام پر سیاسی مقاصد حاصل کرنا اور ’’ایاک نعبد وایاک کا نستعین‘‘ یا ’’ریاست مدینہ‘‘ کے نام پر ہر قسم کی زنا کاریوں پر پردہ ڈال کر قوم کو بے وقوف بنانے کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو قیامت کے دن تک شاید ہی ختم ہو سکے۔ قوم کا حال یہ ہے کہ اس نے کبھی اس بات پر غور کرنا پسند نہیں کیا کہ جو قیادتیں پاکستان بنا رہی ہیں وہ خود اسلام سے کتنا واقف اور مخلص ہیں۔ ان کی تربیتیں کن یونیورسٹیوں میں ہوئی ہیں اور پاکستان میں چلنے والی وہ سب تحریکیں جن میں اسلام کو چٹنی بنا کر رکھا جاتا رہا ہے، ان سب کے پشت پناہی کون کرتا رہا ہے۔
ایک وہ کردار ہے جو نہایت دنیا دار بہروپیے کندن کا ہے کہ جس نے خالص دنیا دار ہونے کے باوجود یہ تک گوارا نہیں کیا کہ کسی نیک انسان کی عزت تار تار ہو اور ایک ہم دیانتدار کہلانے والے اللہ اور اس کے رسول کو بھی (نعوذ باللہ) بخشنے کے لیے تیار نہیں۔ شاید اسی پس منظر میں علامہ اقبال نے فرمایا ہوگا کہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
آج ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر