ایران سعودی عرب قربت اور عالم اسلام کے زخم

893

مسلمان دنیا کے طاقتور مگر متحارب اور مسلکی اعتبار سے جدا ممالک ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی ثالثی کے نتیجے میں قربتوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی بیجنگ میں پہلی ملاقات اور تعلقات کو بہتر بنانے کے عزم کے اظہار کے بعد دوسری ملاقات میں معاملات کو عملی شکل دی گئی ہے۔ دوسری ملاقات بھی بیجنگ میں ہوئی جس میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبدالہیان نے شرکت کی۔ یہ سات سال بعد دونوں ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ تھا۔ اس ملاقات میں دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات کی بحالی مسافروں کو سہولتیں فراہم کرنے اور پروازوں کے آغاز پر بھی اتفاق کیا۔ اس ملاقات کے بعد ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ سعودی عرب بھی متوقع ہے۔ سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے صدر ابراہیم رئیسی کو سعودی عرب کے دورے کی دعوت دی تھی جسے انہوں نے قبول کر لیا ہے۔ ایرانی نائب صدر کا کہنا ہے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی محض اتفاق نہیں بلکہ یہ منصوبہ بندی سے ہورہا ہے کیونکہ ایران ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگوں اور پراکسی جنگوں کا ایک پورا دور گزر چکا ہے۔ اس کشمکش کا آغاز انقلاب ایران سے ہوا تھا۔ یہ انقلاب چونکہ آریہ مہر رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کے خلاف برپا ہوا تھا اور جس کی ڈوریں امریکا کے ہاتھ میں تھیں۔ شہنشاہ کے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں کوئی بڑی خرابی نہیں تھی اس لیے ایران کے اس عوامی انقلاب کو سعودی عرب کی بادشاہت نے زیادہ اچھے انداز میں قبول نہیں کیا۔ انقلاب چونکہ امریکا کے خلاف بھی برپا ہوا تھا اس لیے امریکا نے بھی اسے روز اوّل سے ناکام بنانے کے لیے منظم منصوبہ بندی کا آغاز کیا اور اس کے لیے عرب اور فارس کی قدیم لڑائیوں اور رزم آرائیوں کے ماحول کو زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ صدیوں کی راکھ میں موجود شیعہ سنی اختلاف کی چنگاری کو ہوا دینا شروع کیا۔ عراق ایران جنگ اس کا پہلا مرحلہ تھا۔ جس کے بعد یہ کشمکش پوری مسلمان دنیا میں پھیل گئی۔ پاکستان جو ایران کا ہمسایہ اور سعودی عرب کے زیر اثر تھا اس کشمکش سے بچ نہ پایا۔ سعودی عرب اور ایران دونوں نے خود کو مسلمانوں کے دوفرقوں کے قائد سمجھ کر مسلمان دنیا پر اپنا اثر رسوخ گہرا کرنے کی مہم شروع کی۔ اس مہم میں مسلمانوں کی تقسیم کا عمل تیز تر ہو گیا۔ پاکستان، خلیجی ممالک افغانستان اس کشمکش کا میدان جنگ بن گئے۔ عراق، شام، لبنان اور یمن کا حلیہ اسی جنگ میں بگڑ گیا اور پاکستان وافغانستان بھی اس مخاصمت کی قیمت چکانے لگے۔ لشکر اور سپاہ وجود میں آئے اور پوری دیانت داری سے خود کو مسلم اُمہ کا خادم اور دین کا سپاہی سمجھ کر ایک دوسرے کو خون میں نہلانے لگے۔ مساجد، درگاہوں مدارس اور دینی مراکز کا جو تقدس اس پراکسی جنگ میں پامال ہوا اس کی مثال ماضی کی جنگوں میں ہی ملتی ہے۔ نوے کی دہائی میں سپاہوں اور لشکروں نے جو تباہی برپا کی تھی یہ تو پاکستانی معاشرے کی بالغ نظری تھی کہ ملک مجموعی طور پر کسی خانہ جنگی کا شکار نہیں ہوا بلکہ یہ پراکسی جنگ صرف کچھ نشان زدہ ملیشیائوں اور گروہوں تک محدود رہی جو اُجرتی قاتل کا کردار ادا کرکے ایک دوسرے کے نامور لوگوں کو خون میں نہلاتے رہے۔
بدترین تشدد کا یہ دور پاکستان کی تاریخ کا ایک خونیں باب ہے۔ اس کشمکش کا فائدہ امریکا نے جم کر اُٹھایا جس نے ایران کو خطرہ بنا کر عرب ملکوں پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ ان کے وسائل کو لوٹا اور ان ملکوں میں رجیم چینج کرکے عدم استحکام کو مزید بڑھا دیا۔ پہلے ایران کے خلاف عرب حکمرانوں اور شخصی حکمرانوں کو مضبوط کیا پھر عرب بہار کے نام پر عوامی بغاوتیں برپا کرکے انہیں کمزور کرنے کا عمل شروع کیا۔ صدام حسین کا عروج وزوال اس کا واضح ثبوت تھا۔ ایران کے انقلاب کے فوراً بعد صدام حسین ایران پر پل پڑے اور دس سال تک دونوں ملکوں کے درمیان خوں ریز جنگ جاری رہی۔ جس میں عرب ممالک صدام حسین کی بھرپور مدد کرتے رہے۔ بعد میں یہی صدام حسین نشانے پر آگئے اور پھر صدام حسین کے خطرے سے عربوں کو بچانے کے لیے ایک نیا کھیل شروع ہوگیا۔
صدام حسین کا قصہ تمام کیا گیا تو دوبارہ عرب ملکوں کو ایران کے خطرے سے ڈرایا جانے لگا۔ جب امریکا پوری طرح ایران کو خطرہ بنا کر عرب دنیا کو ڈرا رہا تھا عمران خان نے ایران کے گھیرائو میں شریک ہونے کی اسکیم میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ سعودی تیل پیدا کرنے والی کمپنی آرامکو پر تباہ کن راکٹ حملے ہو چکے تھے اور امریکا نے اس کا الزام ایران پر دھر دیا تھا اور اس ماحول میں ایران وسعودی عرب میں جنگ نوشتہ ٔ دیوار نظر آرہی تھی۔ دور دور تک دونوں میں صلح کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔ اس ماحول میں پاکستان نے دونوں ملکوں میں ثالثی کرکے بظاہر ایک انہونی بات کی تھی۔ چین نے آگے بڑھ کر اس میدان میں عملی پیش رفت کا بیڑہ اُٹھا لیا اور آج مسلمان دنیا کے دو متحارب ممالک کے درمیان انہونی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور تعلق کا باب جوں جوں رقم ہورہا ہے مسلمان دنیا سکھ کا سانس لے رہی ہے۔ مسلمان دنیا نے ان دو ملکوں کی مخاصمت کی قیمت اپنے معاشروں میں شہ دماغوں کی قربانی کی صورت میں چکائی ہے۔ مٹی کا نمک کہلائے جانے کے قابل یہ بے قصور لوگ پراکسی جنگوں کے قتیل ٹھیرے اور ان کا جرم فقط جرمِ بے گناہی تھا۔ مسلمان دنیا کے ان دو با رسوخ ملکوں میں اچھے تعلقات کے اثرات پاکستان سے لبنان اور شام سے یمن تک ہر اس جگہ نظر آئیں گے جہاں اس مخاصمت نے دہائیوں تک لوگوں کی زندگیاں اجیرن کیے رکھیں۔ اس لحاظ سے یہ چین کا مسلمان دنیا پر ایک احسان ِ عظیم ہے کہ دو آگ اُگلتے ملکوں کو ٹھنڈا کر کے ایک دوسرے کے قریب لایا جس کے اثرات اب پورے خطے اور مسلمان دنیا پر مشرق سے مغرب تک پڑیں گے اور یہ اثرات ہر لحاظ سے مثبت ہوں گے۔ چین نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے تو وہ اس امن عمل کی نگرانی کا کام بھی جاری رکھے گا اور امن گاڑی کو پٹڑی سے اُترنے سے روکنے کے لیے ہمہ وقت چوکس اور چوکنا رہے گا۔