پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل ساوند کا خونِ ناحق

998

ویسے تو شاعر بے مثال و بے بدل مرزا اسد اللہ خان غالبؔ نے اپنے جواں سال لے پالک صاحب زادے زین العابدین عارفؔ کے اچانک سانحہ ارتحال پر بطور اظہار رنج و غم جو پُر درد غزل کہی تھی، وہ ساری کی ساری ہی بے حد پراثر اور لاجواب ہے، تاہم خصوصیت کے ساتھ غزل کا یہ شعر تو ان کے تاثرات قلب کے اظہار کے حوالے سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا اور ایک طرح سے ضرب المثل ہی بن چکا ہے۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب ہے گویا قیامت کا کوئی دن اور!!؟
جواں سال، پُرعزم، پُراعتماد، خوب صورت، بے حد باصلاحیت اور ہر ایک کے لیے اپنے اندر پیار اور محبت کا جذبہ فراوان رکھنے والے آئی بی اے یونیورسٹی سکھر کے شعبہ کمپیوٹر سائنس سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل ساوند کی بروز جمعرات 6 اپریل 2023ء کو اپنے آبائی گوٹھ جام ساوند واقع ضلع کندھ کوٹ کشمور سے بذریعہ ذاتی کار سکھر واپسی کے موقع پر کندھ کوٹ کی حدود میں شالو کے مقام پر ساوند، سندرانی دیرینہ قبائلی جھگڑے میں، سندرانی قبیلے کے مسلح افراد کے ہاتھوں بہیمانہ، ظالمانہ بلکہ مظلومانہ قتل نے سندھ بھر میں ایک ماتم اور سوگ کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اہل سندھ بے حد اداس ہیں اور دل گرفتہ بھی۔ اس موقع پر مرزا غالب کا ابتداء میں لکھا گیا مذکورہ شعر ان کے دُکھ، درد، کرب اور صدمے کی بالکل صحیح درست ترجمانی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ المیہ اور ستم درستم یہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل ساوند کی جس قبائلی خونیں جھگڑے میں قیمتی جان گئی ہے اس سے ان کا کوئی دور دور تک تعلق تھا اور نہ ہی واسطہ۔
سندھ میں خونیں قبائلی جھگڑے کوئی نئی بات ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ الم ناک سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ خصوصاً ضلع جیکب آباد، گھوٹکی، شکار پور، کندھ کوٹ، کشمور قبائلی خونیں تنازعات اور اغوا برائے تاوان کے بدنما مراکز بنے ہوئے ہیں۔ آئے دن مذکورہ اضلاع میں بکثرت انسانی جانوں کا بے مقصد اور بے سمت خونیں قبائلی جھگڑوں میں زیاں ایک افسوس ناک معمول بن چکا ہے۔ اس جانب حکمرانوں کی کوئی توجہ ہے اور نہ ہی مقامی قبائلی متحارب وڈیروں اور سرداروں کو اس امر میں کوئی دلچسپی ہے کہ وہ اپنے زیر اثر قبائل کو خونیں جھگڑوں سے بچانے کے لیے اپنا کوئی مثبت کردار ادا کریں، کیوں کہ ان قبائلی تنازعات کا خاتمہ دراصل اناپرست اور جاہ پسند قبائلی سرداروں کے اقتدار، اثر رسوخ اور ان کی اپنے اپنے علاقے میں حکومت ختم ہونے کے مترادف ہے۔ اس لیے سندھ میں اب یہ عام تاثر جنم لے چکا ہے جو بالکل بجا ہے کہ وڈیرہ شاہی پر مبنی مروجہ نظام ایک رستے ہوئے ناسور کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ سندھ میں جہاں جہاں بھی قبائلی خونیں تنازعات رونما ہوتے ہیں، حقائق کا ادراک اور درست معلومات ہونے کے باوجود کہ ان کے پس پردہ فلاں فلاں مقامی بھوتاریا وڈیرہ ملوث ہے، قانون کا آہنی ہاتھ اس تک محض اس لیے نہیں پہنچ پاتا کہ بہت ساری سیاسی مصلحتیں راہ میں حائل ہوجاتی ہیں اور بے چارے غریب مرد و خواتین (بلکہ بچے بھی) بے قصور، بے گناہ خونیں قبائلی جھگڑوں میں بلاسبب ہی آئے دن لقمہ اجل بنتے رہتے ہیں۔ یہ قبائلی جھگڑے بالعموم معمولی اور چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر شروع ہوتے ہیں جن میں کتے کو پتھر مارنے، تیار فصل میں دوسرے قبیلے کے کسی فرد کے مویشی کا گھس جانا، بچوں کے مابین لڑائی، وارہ بندی یعنی اپنی فصل یا کھیت کو پہلے پانی دینے کی کوشش کرنے جیسے امور شامل ہوتے ہیں، جن پر قبائل کے مابین بندوقوں کو منہ کھل جاتے ہیں اور کئی بے گناہ مرد و خواتین کی جانیں چلی جاتی ہیں، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں حدت اور شدت آتی چلی جاتی ہے۔ ان خونیں قبائلی جھگڑوں کو آئے دن رونما ہوتے دیکھ کر ایام جاہلیت میں عرب قبائل کے درمیان صدیوں تک جاری رہنے والی بے مقصد جنگیں اور اس حوالے سے مولانا الطاف حسین حالی کی معروف زمانہ مسدس مدوجذر اسلام المعرف ’’مسدس حالی‘‘ کا یہ شعر بے ساختہ ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا
سندھ میں امن وامان کی صورت حال کافی عرصے سے بہت بُری طرح متاثر ہے۔ اغوا برائے تاوان اور خونیں قبائلی جھگڑے تو معمولات زندگی کا ایک بدنما حصہ بن چکے ہیں، حکومت کی عمل داری محض برائے نام ہی رہ گئی ہے۔ محکمہ پولیس بدعنوانی، رشوت ستانی اور عوام آزادی کا ایک بدنام استعارہ بن کر رہ گیا ہے۔ بقول راقم کے دوست سینئر نامور کالم نگار سندھی اخبارات، تجزیہ نگار اور دانش ور ٹی وی اینکر دستگیر بھٹی ’’اگر محکمہ پولیس کو بند کردیا جائے تو چند ہی روز میں زیادہ تر جرائم ازخود ہی ختم ہوجائیں گے کیوں کہ مجرموں کی اصل سرپرست ہماری پولیس ہے‘‘، اس تبصرہ میں کتنی حقیقت اور کس قدر مبالغہ!!؟ واللہ اعلم لیکن یہ تو ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سندھ پولیس کا سالانہ بجٹ 200 ارب روپے ہونے کے باوجود یہ محکمہ اغوا برائے تاوان کی بکثرت اور آئے دن ہونے والی وارداتوں کو روک سکا ہے اور نہ ہی قبائل کے مابین خونیں تنازعات کے خاتمے کے لیے ہی اپنا کوئی کردار ادا کرسکا ہے۔ کوئی بھی سندھی اخبار اُٹھا کر دیکھ لیجیے وہ جرائم کی خبروں سے معمور اور بھرا ہوا دکھائی دے گا۔ بقول شخصے ’’ہمارے سندھی اخبارات دراصل اخبارات سے کہیں بڑھ کر ’’کرائم ڈائریز‘‘ میں تبدیل ہوچکے ہیں‘‘۔ یہی حالت ہمارے سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کی بھی ہے۔ ان پر بھی محض ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سندھ بھر میں کہیں، کسی بھی مقام پر قانون کی عمل داری نہیں ہے اور حکومتی رٹ کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ہے۔ یہ ایک ایسا افسوس ناک موضوع ہے جس پر بلامبالغہ صفحات کے صفحات تحریر کیے جاسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس ساری ابتر صورت حال کی ذمے داری براہِ راست گزشتہ 15 برس سے سندھ پر حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ قبائلی جھگڑے میں آئی بی اے یونیورسٹی سکھر کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل ساوند بلا سبب ہی موت کے گھاٹ اتارے گئے اور انہیں بالکل بے گناہ سندرانی قبیلے کے مسلح افراد نے اس لیے فائرنگ کرکے قتل کیا کہ ان کا تعلق ان کے حریف قبیلے سے تھا۔ گویا جہالت اور بدبختی کی انتہا ہے۔ مقتول ڈاکٹر ساوند یونیورسٹی آف پیرس (فرانس) سے 2015ء میں Efficient and Secure e health monitoring کے زیر عنوان پی ایچ ڈی کرکے اس نیت سے اپنے وطن واپس آئے تھے کہ وہ اپنے علاقے میں علم کی جوت جگائیں گے۔ مقتول پروفیسر کے 10 سے زائد تحقیقی مقالمے بین الاقوامی سطح کے جرائد میں منصہ شہود پر آچکے تھے اور ان کا علمی و تحقیقی کام پورے زور و شور سے جاری تھا کہ محض 40 برس کی عمر میں انہیں جرم بے گناہی میں موت کی ابدی نیند سلادیا گیا۔
سندرانی قبیلے کے قتل میں ملوث مفرور افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر ساوند کو ’’پلاند‘‘ یعنی ’’بدلہ‘‘ میں قتل کیا ہے۔ یہ کیسی جہالت ہے اور کیسی اندھیر نگری ہے۔ ہم اپنے علم و عمل کی شمعیں خود بجھا کر اسے ’’بدلہ لینے‘‘ کا مکروہ اور مذموم نام دے رہے ہیں۔ قابل مذمت اور بے حد المناک بات یہ بھی کہ مفرور قاتلوں نے ڈاکٹر ساوند کو قتل کرنے کے بعد اس کا باقاعدہ زور دار ہوائی فائرنگ کرکے جشن بھی منایا اور اس کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی۔ ’’تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو‘‘ آخر ہم اور کتنا قعر مذلت میں گریں گے؟ کب عقل اور ہوش کے ناخن لیں گے؟ ڈاکٹر ساوند کے قتل کو بجا طور پر سندھ کے علم، شعور اور آگہی کا قتل قرار دیا جارہا ہے۔ سندھ بھر میں ایک سوگ اور ماتم کی سی فضا طاری ہے۔ صحافی، سماجی، سیاسی، طلبہ اور اساتذہ کی تنظیمیں شہر، شہر احتجاج کرنے میں مصروف ہیں۔ اخبارات کے کالموں اور سوشل، الیکٹرونک میڈیا پر ڈاکٹر ساوند کے قتل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سندھ میں جو جو اضلاع بے سمت اور بے مقصد خونیں قبائلی جھگڑوں سے متاثر ہیں وہاں سے نوجوان اور پڑھے لکھے افراد بڑے شہروں کی طرف بہ امر مجبوری ہجرت کررہے ہیں۔ ڈاکٹر ساوند کے بھائی ڈاکٹر محمد طارق نامور اور ماہر امراض قلب ہیں اور یہ سارا گھرانہ بھی کئی سال پہلے خونیں قبائلی جھگڑوں سے عاجز اور گنگ آکر سکھر شفٹ ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر ساوند کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں وہ ایک تقریب سے دوران خطاب کہہ رہے ہیں کہ انہیں فرانس اور انگلینڈ میں فی گھنٹہ 30 ہزار پاکستانی روپے کے عوض ملازمت سمیت دیگر بہت ساری پیش کشیں کی گئیں، لیکن وہ اپنے وطن اور اہل علاقہ کی خدمت کے لیے واپس لوٹ آئے ہیں۔ ڈاکٹر ساوند بے حد ہمدرد طبع شخصیت کے حامل تھے۔ انسان تو ٹھیرے ایک طرف جانوروں کی تکلیف پر بھی تڑپ اُٹھتے تھے۔ ڈاکٹر ساوند کے قتل میں ملوث 12 افراد پر کیس داخل کیا گیا ہے اور پولیس ان کی گرفتاری کے لیے سرگرم ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب کے سامنے سندھ کے اضلاع جیکب آباد، شکارپور، کندھ کوٹ، گھوٹکی میں شدید بدامنی کے خلاف جماعت اسلامی سندھ بھی صوبائی امیر محمد حسین محنتی، نائب امیر صوبہ حافظ نصراللہ چنا، ناظم جمعیت اتحاد العلما حزب اللہ جکھرو کی زیر قیادت احتجاجی مظاہرہ کرچکی ہے۔ ڈاکٹر ساوند کے خون ناحق میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے تا کہ علم و شعور کی کوئی اور شمع گل نہ کی جاسکے۔