موجودہ سیاسی بحران، سیلاب سے پیدا ہونے والے معاشی نقصانات، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، اندرون ملک سخت معاشی پالیسیوں اور بیرونی دبائو کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 6،0 فی صد رہنے کے امکانات ہیں جو گزشتہ مالی سال 6 فی صد تھی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا کے 8 ممالک میں مہنگا ترین ملک ہے جس میں موجودہ مالی سال مہنگائی کی اوسط شرح 27.5 فی صد رہے گی سری لنکا 24.4 فی صد اور افغانستان 13.8 فی صد کے ساتھ مہنگائی کے اعتبار سے بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبرپر ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلا دیش میں مہنگائی کی شرح 8.7 فی صد، بھارت میں 5 فی صد، نیپال میں 7.4 فی صد، بھوٹان میں 5.5 فی صد اور مالدیپ میں 4.5 فی صد رہے گی۔ اے ڈی پی کی سالانہ آئوٹ لک رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ملک میں موجودہ مالی سال میں میکرو اکنامک حالات سنگین صورت اختیار کر گئے ہیں، غیرملکی زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ سست عالمی نمو اور یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں عالمی سطح پر مزید اضافے کے سبب بھی خطرات درپیش ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث 15ارب ڈالر کے نقصان اور 15 ارب 20 کروڑ ڈالر کے معاشی نقصانات کی بحالی کے لیے ساڑھے 16 ارب ڈالر کی لاگت درکار ہے اس کے اثرات عوام، ان کے ذریعہ معاش، ماحولیاتی نظام، معیشت، غربت اور آبی وسائل پر پڑسکتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے بھی پالیسی ریٹ میں اضافہ کرتے ہوئے شرح سود 20 سے 21 فی صد کردیا ہے۔ عالمی بینک نے بھی معاشی شرح نمو 0.4 فی صد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ یہ صورت حال یقینا پریشان کن ہے اور عوام کی پریشانیوں میں کمی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ گویا یہ وہ حالات ہیں جن میں ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے قومی اتحاد ویکجہتی ناگزیر ہے۔
تاہم ڈو بتے کو تنکا کا سہارا کے موافق حال ہی میں سعودی عرب نے عالمی مالیاتی ادارے کو پاکستان کو دو ارب ڈالرز دینے کا عندیہ دیا ہے جس کے بعد متحدہ عرب امارات سے فنڈنگ اور ایک ارب ڈالر کے ڈیپازٹس کے مراحل درکار ہیں جونہی بیرونی فنانسنگ کی یہ شرائط پوری ہوئیں آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ طے پا جائے گا۔ گزشتہ ماہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دوست ممالک کی جانب سے مالیاتی وعدے کی تکمیل کو آئی ایم ایف سے معاہدے کی راہ میں حائل واحد رکاوٹ قرار دیا تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ نومبر سے شروع ہونے والی 1ارب دس کروڑ ڈالر کی فنڈنگ کے دوبارہ آغاز کے لیے فروری کے اوائل سے پاکستان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے اور یہ قسط 2019ء میں طے پانے والے بیل آوٹ پیکیج کا حصہ ہے۔ اس وقت جب پاکستان کے مرکزی بینک کے ذخائر محض چار ہفتوں کی درآمدات کے برابر ہیں آئی ایم ایف کی قسط ملکی معیشت کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ دیگر بیرونی مالیاتی راستے کھول دے گی اور نتیجتاً ڈیفالٹ کے خطرات کو رد کرنے میں مدد ملے گی۔ اگرچہ ملک کے موجودہ معاشی تناظر میں یہ ایک خوش آئند خبر ہے مگر اقتصادی منظر نامے کا عبوری جائزہ لیا جائے تو یہ ایک عارضی ریلیف کا معاملہ محسوس ہوتا ہے جس سے مالی مشکلات قطعاً کم نہیں ہوں گی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ جس کے مطابق ایشیا کے 46ممالک میں پاکستان افراطِ زر میں سرفہرست اور معیشت کی شرحِ نمو میں سب سے پیچھے ہے اور جس میں پاکستان میں معاشی شرح نمو کا تخمینہ 0.6 فی صد لگایا گیا ہے ہمارے لیے چشم کشا ہونی چاہیے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ بھی پاکستان کی معاشی حالت سے متعلق تشویشناک حالات کی غمازی کر رہی ہے جس کے مطابق رواں سال معاشی شرحِ نمو 0.4فی صد تک رہے گی جبکہ بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات نے 40 لاکھ مزید پاکستانیوں کو خط ِ غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ ان حالات میں عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے سبسڈیز کے مکمل خاتمے کا جو خاکہ پیش کیا جا رہا ہے اس پر عملدرآمد آسان نہیں ہو گا۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب ملک میں مہنگائی پچاس سال کی بلند ترین سطح پر ہے اور گزشتہ برس کے تباہ کن سیلابوں اور بے وقت کی بارشوں اور ژالہ باری کے ملکی زراعت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں بجلی و گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے منفی اثرات معاشی زیر و زبر کی داستان سنا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام پر تکیہ کرکے بیٹھ رہنے کے بجائے طویل المدتی معاشی اصلاحات کی جانب بڑھنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ آئی ایم ایف کو موسمی تغیرات سے زد پذیر معاشی حالات کے سبب نرمی پر قائل کیا جائے۔ البتہ جو اقدام پائدار اقتصادیات کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے وہ معاشی اصلاحات ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ماضی میں قرضوں کی معیشت کے خوگر رہے ہیں لیکن سود در سود اس دلدل پہ مستحکم ملکی معیشت کی بنیادیں کھڑی نہیں کی جا سکتیں، لہٰذا ضروری ہے کہ آج جو معاشی ہنگامی حالات برپا ہیں انہیں غنیمت سمجھ کر معاشی اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا جائے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک بھی اب ہماری مدد سے ہچکچا رہے ہیں اور اس کا اندازہ اس قسط کے حصول کے لیے کی گئی کاوشوں سے بخوبی ہو گیا ہو گا کہ جو اسٹاف لیول معاہدہ گزشتہ برس نومبر میں طے پا جانا چاہیے تھا وہ چھے ماہ بعد بھی غیر یقینی کی لہروں پر جھول رہا ہے۔ ہمارے دوست ممالک بھی اشاروں کنایوں میں معاشی اصلاحات کا کہہ چکے ہیں۔ لہٰذا اب حکومت کی کامیابی اسی میں ہے کہ ریاستی سطح پر مالی نظم پر عمل درآمد کرائے اور معیشت کو دستاویزی شکل دے، میڈ اِن پاکستان کو فروغ دے، درآمدات کے بل کو حتی الوسع کم کرے، کفایت شعاری کی پالیسی اپنائے، سرکاری اخراجات میں کمی کرے اور سرکاری کارپوریشنوں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دے تاکہ ملکی معیشت کو حقیقی معنوں میں ریلیف میسر آ سکے۔