ایک خبر سامنے آئی کہ وزیراعظم ہائوس میں مشکوک شخص داخل ہوگیا اسے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گرفتار بھی کرلیا وہ کوئی شناختی دستاویز بھی نہیں دے سکا ہے۔ اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس نے اپنی شناخت افغان بتائی ہے اس کا دماغی معائنہ بھی کیا جارہا ہے تا کہ اس کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے میڈیکل بھی کرائے جائیں۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مشکوک شخص وزیراعظم ہائوس داخل ہوتے ہی پکڑا گیا۔ ورنہ پاکستانی قوم کے ایسے نصیب کہاں انہیں تو مشکوک شخص بلکہ اشخاص کے وزیراعظم ہائوس سے جانے یا نکالے جانے کے بعد ان کے مشکوک ہونے کا پتا چلتا ہے۔ پاکستانی قوم ہر مرتبہ انتخابات میں یہ تماشا دیکھتی ہے کوئی شخص کسی طرح وزیراعظم ہائوس میں لا بٹھایا جاتا ہے پھر وہ اچھی طرح احکامات مانے تو وہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ جوں ہی سوال کرنا شروع کرے مشکوک ہوجاتا ہے۔ بہرحال حکام کو مبارک ہو بلکہ قوم کو مبارک ہو کہ ایک مشکوک شخص وزیراعظم ہائوس کا مکین بننے سے پہلے پکڑا گیا۔ لیکن وزیراعظم ہائوس میں مشکوک لوگوں کو لانے والوں کے بارے میں کبھی تحقیق یا تفتیش نہیں ہوئی۔ ذہنی حالت جانچنے کے لیے بھی کسی کو وزیراعظم ہائوس میں بٹھانے سے پہلے محنت کرلینی چاہیے۔ کم از کم ذہنی حالت کا سرٹیفکیٹ تو بہت ضروری ہے۔ مشکوک لوگوں کو وزیراعظم ہائوس میں بٹھانے والوں کی ذہنی صحت کی بھی جانچ ہونی چاہیے۔ وہ خود مشکوک شخص کو بٹھاتے ہیں پھر بعد میں اس کے بارے میں شور مچاتے ہیں۔ اور شور بھی کس چیز کا!! یہی کہ پاکستان بحران میں ہے، سیاسی بحران، اقتصادی بحران، پارلیمانی بحران، عدالتی بحران وغیرہ وغیرہ اور اس بحران کی تشہیر اس زور دار طریقے سے ہوتی ہے کہ ہر پاکستانی کو یقین ہوجاتا ہے کہ ملک بحران میں ہے۔ کسی کو یہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے کہ بحران کیا ہوتا ہے اسے یقین پھر بھی ہوجاتا ہے کہ ملک بحران میں ہے۔ اب عدالتی بحران کے نتیجے میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ فل کورٹ کی جگہ بنچ کے قیام سے عوام کی حق تلفی ہوگئی۔ نوے روز میں الیکشن نہیں ہوں گے تو عوام کو ان کا حق نہیں ملے گا۔ سب الیکشن پر متفق ہوجائیں گے تو ملک کے عوام خوشحال ہوجائیں گے۔ لیکن کیا ایسا ہوجائے گا۔ فرض کریں کہ حکومتی اتحاد اور اپوزیشن فل کورٹ کے معاملے میں متفق ہوجاتے تو کیا فرق پڑتا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کتنے فل کورٹ فیصلے ہوئے ہیں، ان فیصلوں سے مہنگائی کم ہوئی نہ انصاف ملا۔ اور نہ امن وامان ملا۔ حکومتی اتحاد نے تین رکنی بنچ کے فیصلے سے اختلاف کا برملا اظہار کردیا ہے۔ کیا حکومت ضمانت دے سکتی ہے کہ اس کی بات مان لی جاتی تو عوام کے مسائل حل ہوجاتے۔ کچھ ہی مہینوں قبل نئے آرمی چیف کے تقرر کے بارے میں بحران نظر آرہا تھا۔ حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ کوئی نہ کوئی آرمی چیف مقرر ہوجائے گا لیکن پھر بھی بحران کی تکرار جاری رہی۔ آرمی چیف کے تقرر سے بحران ختم ہو گیا لیکن اس بحران سے کیا نقصان ہورہا تھا۔ اب بھی اگر 90 روز میں دو صوبوں میں الیکشن ہوجائیں تو کیا ملک کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ تمام حکمران اور اپوزیشن جماعتیں مل کر بھی یہ کہہ دیں کہ ایسا ہوجائے گا تو قوم کی غالب اکثریت اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوگی کیونکہ اس سے قبل کئی مرتبہ بروقت اور قبل ازوقت انتخابات ہوچکے ہیں۔ عدالتوں نے حکمرانوں اور اپوزیشن کی مرضی کے فیصلے دیے ہیں، آرمی چیف مقرر ہوتے رہے اور تبدیل ہوتے رہے، ایک وزیراعظم جاتا اور دوسرا آتا رہا لیکن وہ جو جالب نے کہا تھا کہ
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اور یہی نہیں بلکہ جن لوگوں کے مزے ہیں اور جو سیاست کا چلن ہے اس کے بارے میں بھی کہا کہ
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلاف عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
تو خواہ کوئی آجائے کوئی چلا جائے، فوجی اقتدار ہو یا فوج کے کنٹرول میں اقتدار، عوام کے دن نہیں بدلتے۔ ان ہی باریاں لینے والوں کے دن بدلتے ہیں۔ اب عوام کو یہ سوال خود کرنا چاہیے کہ ہمیں تو بنچ اور بحران کے چکر میں لگادیا۔ لیکن یہ مہنگائی کون کرتا ہے، پٹرول عالمی مارکیٹ میں سستا ہونے کے باوجود پاکستان میں قیمت کم نہیں ہوتی، زرعی ملک کی زراعت کون تباہ کرتا ہے، کیا یہ کام تین رکنی بنچ کرتا ہے یا فل کورٹ، 90 روز میں الیکشن ہوگئے تو کیا مہنگائی ختم ہوجائے گی۔ اور بقول وزیراعظم شہباز شریف کہ اب الیکشن کرانا ممکن نہیں ہے۔ شہباز شریف یہی بتادیں جب الیکشن کرانا ممکن ہوجائے گا تو کیا عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہ سارے بحران مصنوعی ہیں۔ یہ الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کیے جاتے ہیں اس کا خوف دلا کر لوگوں سے ہر غلط بات قبول کروالی جاتی ہے۔ پھر بھی قوم کے حالات بہتر نہیں ہوتے اور قوم سوال نہیں کرتی۔ قوم کو سوال کرنا چاہیے، کم از کم یہ سوال تو ہر حکمران سے کرنا چاہیے کہ آپ نے یہ یہ دعوے کیے تھے ان پر عمل کیا ہوا، ایک ایک وعدہ یاد دلا کر ان سے سوال کیا جائے۔ ایشین ٹائیگر والوں سے اس کا، روٹی کپڑا مکان والوں سے اس کا اور ریاست مدینہ والے سے اس کا۔ چیف جسٹس سے پوچھا جائے کہ گوادر کا غریب جیل میں ہے، جج نہیں ہے، وکیل نہیں ہے، یا پھر آرڈر نہیں ہے اور بنی گالہ اور جاتی عمرا کا امیر ضمانتوں پر ضمانتیں اور کیس ختم کراتے رہتے ہیں۔ یہ دو قانون کیوں ہیں، بحرانوں کی کہانیاں ختم کریں اور قوم کو اس کا حق لوٹادیں۔
یہ سارے بحران صرف اس لیے ہیں کہ اب ہمارے پورے نظام میں مشکوک لوگ گھس گئے ہیں۔ اس بات کی تحقیق سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ مشکوک لوگ گھسے کس طرح، مسئلہ یہ ہے کہ اب تو گھس گئے ہیں اور ہر شعبے کو کنٹرول کرنے میں مصروف ہیں۔ ان سے جان چھڑانا آسان نہیں ہے، اس لیے کہ کسی کی ذہنی کیفیت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کب ملک کو اور عوام کو اور پورے نظام کو نقصان پہنچادے گا۔ ان مشکوک لوگوں نے جو کبھی وزیراعظم ہائوس میں، کبھی ایوان صدر میں، کبھی فوجی وردی میں ہوتے ہیں ملک کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا ہے اور یہ خود مشکوک ہونے کے باوجود دوسروں کو مشکوک قرار دیتے ہیں۔ بہرحال قوم کو پہلے مشکوک شخص کی گرفتاری مبارک ہو۔