چوکیدار یا سُپر وائزر‘ فیصلہ جرنیل کے اختیار میں ہے

598

انگریزی کو ترقی کا زینہ سمجھنے والوں نے علیگڑھ اور بمبئی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل معزّزین کو پاکستان کے دفتری امور نمٹانے کے لیے منتخب کرلیا جنہیں ہم بیوروکریسی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو متحدہ ہندوستان میں آئی سی ایس اور پاکستان بن جانے کے بعد پی سی ایس کے رُوپ میں کبھی غازہ اور پوڈر لگا کر حکمرانوں کے سامنے آبیٹھتا ہے اور ’سب اچھا ہے‘ کا نعرۂ مستانہ سناتا رہتا ہے اور جب حکمرانوں کی چھٹی کرانا مقصود ہوتا ہے تو یہی لوگ اپنے مُنہ پر کالک مَل کر اُن کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں اور ’سب خراب بلکہ بہت خراب ہے‘ کی بھیرویں سنا سنا کر حکمرانوں کو بھگا چھوڑتے ہیں۔ پاکستان میں آج بھی ایسا ہی کیا جارہا ہے۔ مسلم لیگ اینڈ کمپنی کی بانسری پھٹ چکی ہے لیکن بیوروکریسی اُس میں سے سُر نکالنے میں مصروف ہیں۔
بیوروکریسی کے چنیدہ سیاسی جغادری ماضی کی طرح پھر چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک بار پھر دس سال کے لیے مارشل لا نافذ کردیا جائے تاکہ آج کا دس سالہ بچّہ کل جب بیس سال کا ہوجائے گا تب اُس کے خانہ خیال سے موجودہ سیاسی جماعتوں کے کرتوت مٹ چکے ہوں گے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے عنوان کے تحت چلائی جانے والی تحریک نے جماعت ِ اسلامی کے سِوا تمام سیاسی جماعتوں کی چُولیں ہلا ڈالی ہیں اور حال یہ ہے کہ اسمبلی کی نمائندگی کے لیے اُن پارٹیوں کا ٹکٹ لینے پر بھی کوئی آمادہ نظر نہیں آتا ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ امریکا کو بھی پاکستان میں یک نمائندگی لیڈر کی حکومت خوب راس آتی ہے کیونکہ جمہوری نظام میں اُسے اپنی حمایت حاصل کرنے کے لیے دو ڈھائی سو اراکین اسمبلی کی منظوری حاصل کرنا پڑتی ہے جبکہ آمر ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
چوکیدار کو جرنیل یا جرنیل کو چوکیدار سے تعبیر دینے والوں سے عرض ہے کہ کسی گھر میں یا کسی چہار دیواری کے اندر ناچ گانے کی محفل سجی ہُوئی ہو اور وہاں شراب وکباب کا دَور چل رہا ہو یا وہاں تبلیغ دین اور اخلاقیات کا درس دیا جارہا ہو‘ اُس گھر یا اُس چہار دیواری کی چوکیداری پر مامور شخص کو اس کی فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ اُس مقام پر کیا عمل کیا جارہا ہے۔ اُس کو تو بس یہ دیکھنا ہے کہ وہاں کوئی غیر متعلقہ شخص داخل نہ ہونے پائے یا اندر سے کوئی شے بلا اجازت اُٹھا کرنہ لے جائے۔ مہینہ مکمل ہونے پر چوکیدار کو اُس کے ہاتھ میں اُس کی مقررہ تنخواہ پکڑا دی جاتی ہے اور بس۔
جج اور جرنیل کی حیثیت سُپر وائزر جیسی ہوتی ہے وہ اپنے عہدے پر تعینات ہوتے وقت اِس بات کا حلف لیتا ہے کہ وہ نہ صرف گھر کے اندر اور باہر ہونے والی خرابیوں پر نظر رکھے گا بلکہ ایسی صورت حال کے رونما ہونے پر اُس کا سدّباب بھی کرے گا۔ سیلاب سے متاثّرین ہوں یا زلزلہ زدگان حتیٰ کہ بجلی چوروں کی پکڑدھکڑ کرنے کے لیے بھی افواج کا استعمال کیا گیا ہے۔ چند سال قبل امریکا میں جب ہَوائی عملے نے ہڑتال کے باعث کام کرنے سے انکار کردیا تھا تب صدر ریگن نے امریکی فضائیہ کے اراکین کو یہ ذمّے داری پوری کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
ہمارے ملک پاکستان میں آج کیا کیا اور کیسی کیسی خرابیاںسر اُبھارتی چلی جارہی ہیں یہ کسی ذی ہوش سے ڈھکی چھپی ہُوئی نہیں ہیں۔ اِن خرابیوں کی ذمے داری جہاں صدر مملکت‘ وزیر اعظم اور حکومت کے اہلکاروں پر عائد ہوتی ہے وہاں ہمارے جرنیل بھی برابر کے شریک ہوں گے کیونکہ وہ فی الواقعی چوکیدار نہیں سُپروائزر ہیں۔ فزوں تر مہنگائی قوم کے ایک ایک فرد کو بے آبرو کرتی چلی جارہی ہے اور امن وآمان کی صورت حال دگرگوں ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء اور دواؤں میں ملاوٹ کرنے والے بے خوف وخطر اپنے کاموں میں جتے ہوئے ہیں۔ علاج معالجے کی سہولت ناپید ہوتی چلی جارہی ہے۔ جمہوریت شاید اِسی کا نام ہے کہ جو جس حال میں ہے اُسے اُسی حال میں رہنے دو۔ صاف بات ہے کہ نام نہاد جمہوری حکومت اگر اِس ظلم کی ذمے دار ہے تو جج اور جرنیل بھی اِس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
ظاہری طَور پر جمہوری چمپئن اگر واقعی چمپئن بننا چاہتے ہیں اور پاکستان کو فی الواقعی ایک جمہوری ملک بنانا چاہتے ہیں تو اُنہیں جَلد ازجَلد یہ طے بلکہ عہد کرنا پڑے گا کہ ہر حکومت کو پانچ سال کی مدّت پوری کرنے دی جائے گی‘ تعمیری تنقید کا سلسلہ اگرچہ جاری رکھا جائے گا لیکن حکومت کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی جائے گی۔ مُلکی آئین میں یہ گنجائش بھی پیدا کی جائے کہ حکومت کی ناکامی اور بگاڑ کی صورت میں ہر عام وخواص کو عدالت ِ عظمیٰ سے اصلاح لینے کی اجازت ہوگی اور عدالت سے حاصل ہونے والے فیصلے کو بلا چوں وچرا صمیم ِ قلب سے تسلیم کیا جائے گا۔
جنرل ایوب‘ جنرل ضیا اور جنرل مشرف امریکی خوشنودی حاصل کرکے دس دس سال تک پاکستان میں سیاہ وسفید کے مالک بنے رہے بعد ازاں امریکی حکمرانوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی خدمات کو سراہتے ہوئے پاکستان کے حکمرانوں کو مشورہ دیا تھا کہ اُن کی مدت ملازمت میں ایک دو برس نہیں پورے تین برس کی توسیع دے دی جائے۔ یہ سمجھ نہیں آئی کہ امریکیوں نے کیانی صاحب کو تاحیات چیف رکھنے میں کیوں کنجوسی دِکھائی تھی۔ قارئین جانتے ہوں گے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا بھی امریکی حکم نامے کے تحت اپنی ملازمت میں توسیع لے چکے تھے اور شاید جنرل باجوہ بھی امریکا کی فرماں برداری کا معاوضہ وصول کرچکے ہیں۔ اب یہ رَوِش ختم کردینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ قطار میں کھڑے ہونے والے سپاہیوں کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔
وزیر ِاعظم شہبازشریف معین قریشی کی طرح فی الحقیقت درآمد تو نہیں کیے گئے ہیں کہ انہیں قوم کے دکھوں کا احساس نہیں ہوگا۔ وہ بال بچے دار اور رشتہ داری کا ایک سلسلہ رکھنے والے پاکستانی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ دریا اور سمندر سے جڑا ہُوا ملک مچھلیوں کا شکار کرنے سے محروم ہے۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ انہیں مچھلیوں کے شکار کے عوض جتنی قیمت میسّر آتی ہے اُس کی دوگنی قیمت ڈیزل اور ایندھن کی خریداری پر اُٹھ جاتی ہے۔ یہاں کوئلے کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے لیکن جعلی ڈگری کے حامل وزرا اور جعلی دل ودماغ رکھنے والے حکومتی عناصر اِس نعمت سے فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ حکمران یہ بھی جانتے ہیں کہ اُن کا ملک پھلوں کے حوالے سے خود کفیل ہے لیکن ٹھنڈے گوداموں یعنی کولڈ اسٹوریج کے قیام نے غریبوں کو موسم کا پھل کھانے سے محروم رکھا ہُوا ہے۔ ججوں نے خصوصی طور پر چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ادراک بھی کیا تھا اور اُس کا تدارک کرنے کے لیے حکومتی اہلکاروں کو حکم بھی دے رکھا تھا لیکن قوت کے بغیر حکم پر عملدرآمد نہ کیا جاسکا۔ عدالت نے یہ بھی فیصلہ دے رکھا ہے کہ دُھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو شہروں میں چلنے نہ دیا جائے لیکن رشوت کے زور پر یہ تماشا ابھی تک جاری ہے جس کے باعث دل اور سانس کے مریضوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
سبزیوں کی قیمتیں پھلوں کے برابر ہوگئی ہیں۔ اَناجوں اور دالوں کا کال پہلے ہی تھا‘ اب پھلوں اور جانوروں کے اسمگلنگ سے گوشت اور پھل بھی ملک سے ناپید ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کیا مہنگائی شُتر بے مہار کی مانند ہے کہ کسی کے قابو میں نہیں آتی ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کولڈ اِسٹوریج سے نکلے ہُوئے پھلوں کا ذائقہ اُترجانے کے باعث اُس کی لذّت جاتی رہتی ہے اَور کھانے والوں کو وہ مزا نہیں ملتا ہے جو مَوسم کے پھلوں میں ہوتا ہے۔ اِس حوالے سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کولڈ اِسٹوریج میں رکھے ہُوئے پھلوں کی ظاہری شکل اَور صُورت میں اَگرچہ کوئی تبدیلی رُونما نہیں ہوتی ہے لیکن اُس کی اَندرونی سطح میں کوئی اَیسی بات ضرور پیدا ہوجاتی ہے جو اُس کا ذائقہ خراب کرنے کا سبب بنتی ہے۔
بہرکیف! قوت نافذہ رکھنے والے اکابرین کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے ذلت کا تمام سامان پاکستانی قوم کے سروں پر لاد دیا ہے اور اُس کی کمر دوہری کردی ہے اور قوم کی کیفیت یہ ہے کہ وہ آنکھ اٹھاکر دیکھنے کے قابل نہیں ہے۔ چنانچہ حکومت کو یہ کہہ دینے کا وقت آگیا ہے کہ وہ نئے انتخابات کے انعقاد کا اِعلان کردے۔