امسال فقط درخواست پر حاضری

807

خبر کیا تھی مانو دل کے تمام تر تار جھنجھنا اٹھے ورطہ حیرت نے گنگ کر دیا کہ اس مرتبہ جس جس نے حاضری کی درخواست محض ’’درخواست‘‘ دی وہ بغیر قرعہ اندازی کے اس کے دربار میں جا سکتا ہے۔ عازمین حج کے لیے اتنی بڑی خوشخبری کہ ریگولر اسکیم کے تحت حج کا کوٹا تھا 44190 جبکہ سال 2023 کے لیے 72869 درخواستیں جمع کرائی گئیں یعنی کوٹے سے تقریباً 37 ہزار زائد درخواستیں جمع کرائی گئیں صورت حال کے مطابق اگر قرعہ اندازی ہوتی (جو کہ ہوا کرتی ہے اور درخواست گزار مصلے بچھا لیا کرتے ہیں ان کا نام خوش نصیبوں میں شامل ہو جائے) تو صرف 44 یا 45 ہزار ہی خوش قسمت قرار پاتے مگر یہاں اس کائنات کے خالق کی بے نیازی تو دیکھیں اک کن پر تمام درخواست گزاروں کو اذن سفر دے دیا پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور کے ساتھ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’امسال قرعہ اندازی کے بغیر درخواست دینے والے تمام کے تمام افراد کو حج پر بھیجا جائے گا‘‘۔
ہر چند کہ ہمارے گھر کے اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے ماہر معاشیات پروفیسر زاہد شفیق بھٹی (جنہیں ہمارے سرتاج ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے) نے بہتیری روشنی ڈال ڈال کر بتایا کہ ڈالر جمع ہوں گے معاشی استحکام و فوائد کی باتیں بتاتے رہے مگر ہمارے کان تو ’’لبیک اللہم لبیک‘‘ کی صداؤں سے گونجنے لگ گئے تھے ہمیں کچھ اور سنائی نہیں دے رہا نہ ہی کچھ دکھائی دے رہا ہے ہر سو خالق کائنات کی بے نیازی، اس کی بے پایاں رحمت، محبت، شفقت، اس کا ’’کن فیکون‘‘ نظر آ رہا ہے کسی کے لیے یہ مہنگائی، آٹے کے ایک ایک تھیلے کے پیچھے ’’لبیک’’ کہتے ہوئے موت کا پیغام لے کر آگئی اور کسی کے لیے اس کی چاہت اس کا مان اس کا اللہ کے گھر کے دیدار کا خواب اسی مہنگائی نے پورا کرادیا یہ سب کیا ہے ایک ہی شے کچھ کو بامراد کر رہی ہے اور کچھ کو نامراد چھوڑ گئے کوئی کرب نارسائی میں مارا گیا اور کوئی ہفت اقلیم کے خزانوں کی کنجیاں سمیٹنے جانے والا ہے۔
اس نے کہا کہ ’’میں تمہارے گمان کے ساتھ ہوں‘‘ کتنے یقین سے دینے والوں نے درخواستیں دے دیں کہ ساری کی ساری قبول ہوگئیں ماشاء اللہ سے کیسے لاڈلے تھے یہ سارے کے سارے انہیں قرعہ اندازی کی زحمت بھی ان کے ربّ العالمین نے نہ دی ایک ہی نشست میں ان کی حاضری کے فیصلے کروادیے ایک کورونا کا سال تھا کہ کلیجے پھٹے جاتے تھے مارے غم کے منہ کو آتے تھے مگر طواف کعبہ تو کجا مکہ کی مٹی کی خوشبو سے ہی عاشقوں کو دور کر دیا گیا تھا بے بسی سی بے بسی تھی نجانے کس کے استغفار، کس کی مناجات کس کی آہ و زاری قبول ہوئی کہ طواف کے لیے پروانے روانہ ہونا شروع ہوئے مگر احتیاطوں کے ساتھ… مگر اس سال یہ رحمت کی یلغار ہے یا آزمائش کی پکار وہ عشاق کی کثیر تعداد کو بغیر قرعہ اندازی کے اپنے پاس بلا کر کہیں یہ تو نہیں دیکھنا چاہتا کہ آسانی سے ہاتھ آئی متاع کی طرح عشاق مومنین اس اتنے بڑے انعام کا حق ادا کرتے ہیں یا اس موقع کو سیلفیوں، دکھاوے، شاپنگ یا ریاکاری کے مظاہروں میں ضائع کرتے ہیں؟
پہلے اس در پہ جانے والے گھر بار مال و متاع، رشتے داریاں بھول کر فقط اسی کے ہو رہتے تھے کعبے کے غلاف اور روضے کی جالیوں سے لپٹ کر دنیا و مافیہا بھول جاتے اور سکون پاتے تھے آنسوؤں کی لڑیاں پروتے تھے اور ان اشکوں سے جنت الفردوس میں مغفرت کے محل تعمیر کرواتے تھے مگر ان اشکوں کو دنیا والوں سے چھپاتے تھے آج وہ اپنے اک اک اشک کو تصاویر اور ویڈیوز میں مقید کر کے اپنے گھروں، عزیز واقارب کی طرف بھجواتے ہیں ان کی ہر دعا چاہے قبول نہ ہو مگر اک کلک کے ساتھ فیس بک، انسٹا، ٹک ٹاک اور ٹویٹر پر وائرل ضرور ہو جاتی ہے ان کے آب زمزم اور کھجوریں بھلے سے خالص مکہ ومدینہ کی ناں ہوں ان کے اعلیٰ ترین ہونے پر کوئی دو رائے نہیں ہوتی اور اب تو سب ہی جا رہے ہیں بلائے جا رہے ہیں یا آزمائے جا رہے ہیں مگر یہ طے کہ امسال سبھی جا رہے ہیں جانے والوں کو نصیحت کرنے والی اپنی حیثیت ہی نہیں مگر رہ جانے والوں میں شامل ہونے کا ملال بہت ستا رہا ہے اس مہنگائی میں یہی تو مانگا ہوا ہے کہ ’’یاربی یہ میری ذریت اور زوج تیرے ہی حکم سے میرے ہیں ناں تو بس اسی لیے ان سب کے ساتھ ہی تیرے دربار میں حاضری دینی ہے وسائل تو نہیں ہیں لیکن اس دور دجل میں تجھے واسطہ یہ دینا ہے کہ ہم سب کو در کعبہ اک ساتھ بلالے اس توفیق کے ساتھ کہ بغیر ریا، نمائش دکھاوے اور سیلفی کلچر کے صرف تجھ سے مناجات کریں گے تیرے کعبے اور تیرے حبیبؐ کے روضے کی جالیوں کو اپنی سانسوں اور یادوں کی گہرائیوں میں مقید کر کے اپنے اعمال کی پنہائیوں میں سمو کر لے آئیں گے بس اک بار فقط اک بار تو ہم جیسوں کو بھی تو موقع دے جو ایک ساتھ آنا چاہتے ہیں اپنے پیاروں کے ساتھ اپنے پیاروں کے پاس۔ بلالے ناں پیارے اللہ کہ اس سال تونے ان 37 ہزار کو بھی تو بغیر قرعہ اندازی بلالیا ہے ہم تو صرف آٹھ ہیں ہم آٹھوں کو بھی بلالے ناں۔