آج ایک بار پھر قوم کو سیاسی پارٹیوں کی صورت میں تقسیم در تقسیم کا سامنا ہے۔ تب ہی تو یہ عاجز ایک مرتبہ پھر میانہ روی اختیار کرنے کی غرض سے ڈائیلاگ کا مشورہ دے رہا ہے۔ اس وقت ملک دو ایسے مخالف سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہے جن کے موقف اور خواہشات میں بعدالمشرقین کا فرق ہے۔ یہ ایسی ہی کیفیت ہے جو سقوط ڈھاکا کے وقت مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کی صورت میں اس وقت بھی حکومت اور اپوزیشن اپنی پوزیشن سے ذرہ برابر ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھی اور آج بھی عمران خان کی صورت میں، اپوزیشن اور اتحادی حکومت اپنے رویے میں لچک پیدا کرنے کو تیار نہیں۔ عدالت عظمیٰ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ زیر سماعت ہے۔ حکومتی اتحاد نے اس کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے جسے نہ ماننے کی صورت میں عدالت عظمیٰ میں کیس کی سماعت کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اتحادی جماعت مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے لندن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عدالت کے تین رکنی بینچ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب بینچ ہی قبول نہیں تو اس کا فیصلہ کیسے قبول ہوگا؟ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں قوم ایک فریق کی مرضی کے فیصلے قبول نہیں کرے گی۔ ان کے بقول ایسی ہی بینچوں کے فیصلوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر تین رکنی بینچ ہی کیوں؟ اس میں کیا مصلحت ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی کہا ہے کہ اس نے فل کورٹ کی تجویز مسترد نہیں کی۔ صرف یہ کہا ہے کہ اسے بعد میں دیکھیں گے۔ پیر کو عدالت عظمیٰ نے اس کیس کی سماعت کی، جس کے فیصلے سے صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔
ملک کے سنجیدہ فکر طبقات کا بھی یہی مشورہ ہے کہ معاملے کی انتہائی اہم اور حساس نوعیت کے باعث فل کورٹ ہی کو اس کی سماعت کرنی چاہیے۔ ان کے خیال میں حکومت اور اپوزیشن صورتحال کو ایسی جگہ نہ لے جائیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو اور افہام و تفہیم سے جمہوری طور طریقوں کے مطابق مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالیں۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی جنہیں مفتی اعظم کا درجہ حاصل ہے، ایسی ہی تجویز پیش کی ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی عدالتی اور معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوج اور عدالت کو سیاست میں دخل اندازی سے گریز کرتے ہوئے موجودہ سنگین حالات میں سیاسی جماعتوں کو ساتھ بٹھا کر غیرجانبداری سے اختلافی مسائل کا حل نکالنے کا صائب مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ ملک کے مفاد اور سلامتی کے لیے ایسا کرنا ان اداروں کا فرض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران کا یہی حل ہے کہ تمام جماعتیں اور ادارے منافرت اور دشمنی کے بجائے سرجوڑ کر ملک کو بچائیں۔
ملکی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں اور مبصرین بھی فریقین پر غیرمشروط مذاکرات کے لیے زور دے رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ ملک کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے۔ اس کا فیصلہ یقینا آئین اور قانون کے مطابق ہوگا مگر مبصرین کی رائے میں جس مسئلے پر ابتدا میں 9رکنی بینچ بیٹھا تھا وہ سکڑ کر تین ارکان تک پہنچ گیا۔ اس سے متعلق ایک فریق میں تحفظات اور خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ سیاسی معاملات عدالتوں میں جانے ہی نہیں چاہئیں جیسا کہ خود عدالت عظمیٰ کے فاضل چیف جسٹس اور ججوں نے کہا ہے کہ ایسے معاملات سیاستدانوں کو خود ہی نمٹانے چاہئیں۔ عدالت عظمیٰ جو بھی فیصلہ آئین کے مطابق دے اس سے قطع نظر سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ جمہوریت کے اصولوں کے مطابق میانہ روی اختیار کرنے کی غرض سے آپس میں مل بیٹھیں اور ملک کو آئینی بحران سے نجات دلائیں۔ ان کے اختلافات جیسا کہ نظر آرہا ہے بڑھتے ہی چلے گئے اور عقل سلیم سے کام نہ لیا گیا تو غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع مل جائے گا۔ اس سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ آپس میں معاملات طے کرلیے جائیں۔ عدالت عظمیٰ نے انتخابات التوا کیس میں سیاسی جماعتوں کے لیے ڈائیلاگ کے جس آپشن کا ذکر گزشتہ ہفتے کیا تھا گزشتہ روز مزید زور دے کر اس جانب توجہ دلائی۔ اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت اور پی ٹی آئی ڈائیلاگ کریں اور حل نکالیں قوم کی خاطر ڈائیلاگ کریں اور کسی سیاسی نتیجے پر پہنچیں۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ ڈائیلاگ نہیں ہوئے تو آئینی مشینری موجود ہے۔
عدالت عظمیٰ کے ان ریمارکس سے بظاہر یہ مدعا سمجھ میں آتا ہے کہ عدالت سیاسی نوعیت کے معاملات پر خود سیاسی قوتوں کو کردار ادا کرتا ہوا دیکھنا چاہتی ہے۔ اصولاً یہی اس تنازعے کا بہتر حل پیش کر سکتا ہے۔ اگر سیاسی فریقوں نے یہ کردار ادا کیا ہوتا تو غالباً یہ مسائل پیدا ہی نہ ہوتے اور نہ سیاسی نوعیت کے تنازعات آئینی الجھاؤ کا سبب بنتے۔ آج ملک کی اعلیٰ ترین عدالت جو آپشن دے رہی ہے یا حکم صادر کر رہی ہے بنیادی طور پر یہی اس مسئلے کو طے کرنے کا بنیادی طریقہ ہے اور اصولی طور پر یہ اسی انداز سے حل ہونا چاہیے۔ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی طرفین جنہیں اپنی بقا اور ساکھ کے لیے اس اصلاحِ احوال کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہی اس آپشن کو رد کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے جس ڈائیلاگ کی جانب توجہ دلائی گئی حکومتی اتحاد نے اسے سرے سے مسترد کر دیا بعد میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کی جانب سے بھی یہی ردعمل آیا۔ جب مد مقابل سیاسی فریقین بات چیت کے آپشن سے یوں کترا رہے ہوں تو ملک اس گمبھیر صورتحال سے کیونکر نکل سکتا ہے؟ جیسا کہ چیف جسٹس نے قرار دیا سیاسی جماعتوں کو قوم کے لیے اس آپشن کی طرف بڑھنا اور کسی حل تک پہنچنا چاہیے کیونکہ اب تک یہ صرف سیاسی بحران تھا مگر اب آئینی مسئلہ پیدا ہو چکا ہے اور بد قسمتی سے یہ ان حالات میں ہو رہا ہے جب ہم آئین پاکستان کی پچاس سالہ تقریبات منا رہے ہیں۔
کیا عجیب اتفاق ہے کہ ایک طرف آئین کی تشکیل کی سالگرہ پر مبارک سلامت کا غلغلہ ہے اور دوسری جانب آئین کی واضح عبارت سے صریح رو گردانی۔ یہ مسائل سیاست کے پیدا کردہ ہیں؛ لہٰذا سیاسی جماعتوں ہی کو انہیں نمٹانے کے لیے بروئے کار آنے کی ضرورت ہے۔ عدالت عظمیٰ تو قرار دے چکی کہ سیاسی جماعتیں نہیں کرتیں تو آئینی مشینری موجود ہے مگر احسن صورت یہی ہے اور کسی جمہوری سماج میں ترجیحاً ہونا بھی ایسے ہی چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو مکالمے کی حکمت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً اس کا زبانی اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے چند روز پہلے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے گریٹر ڈائیلاگ اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے بیان کو دیکھ لیں۔ حیرت ہے کہ یہ باتیں پچھلے قریب چھے آٹھ ماہ کے دوران بارہا کی جا چکیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے ایک بھی بامعنی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس طرح سیاسی بحران میں جو اضافہ ہوا اس کی تفصیل دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اگر بات چیت کا کوئی عمل شروع ہو چکا ہوتا تو غالب امکان ہے کہ آج ہمارے حالات کم از کم یہ نہ ہوتے کہ ملک میں انتخابات کے انعقاد کا سوال ایک آئینی بحران کا سبب بنا کھڑا ہوتا۔ اس عدم اطمینان کی صورتحال نے معیشت کو جس طرح متاثر کیا وہ بھی آج پاکستان کا ہر فرد بشر اچھی طرح سمجھتا ہے۔ ان حالات و واقعات کے تناظر میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ کے بغیر قومی مسائل کا حل ممکن نظر نہیں آتا؛ چنانچہ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ ہٹ دھرمی ترک کی جائے اور ڈائیلاگ کی تجویز پر پورے خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔