وہن اور ہمارے حکمران

1204

کل اخبار دیکھتے ہوئے ایک تصویر بہت مضحکہ خیز سی لگی لگا کہ چند لوگ مل کر عمران نیازی کی دھلائی کر رہے ہیں مجھے پریشانی لاحق ہوگئی یہ کیا اتنے ہجوم نے نیازی صاحب کو پکڑ رکھا ہے ان کے جانثاروں نے کیسے یہ سب کرنے دیا پھر تصویر کے نیچے عبارت پڑھ کر معلوم ہوا کہ یہ نیازی کو نہیں بلکہ اس کے گرد بلٹ پروف شیلڈ کو لوگوں نے پکڑ رکھا ہے تاکہ اللہ کی عبادت کرنے والے اس ’’عابد‘‘ نیازی کو، اللہ سے مدد مانگنے والے اس ’’متوکل‘‘ نیازی کو جان کی امان دی جائے۔ دوسری طرف واٹس ایپ پر وائرل ایک سفید ریش بزرگ کی جرأت مندانہ شہادت کے چرچے جن سے ڈکیتوں نے مال چھینا تو انہوں نے جی داری سے نہتے ہو کر بھی اک زور کا تھپڑ جڑدیا جس کے جواب میں اس ڈکیت نے جاتے جاتے انہیں گولی مار کر موت سے ہم کنار کر دیا یہ قطعی دو مختلف پس منظر کی دو مختلف تصاویر تھیں ایک میں خواص کی جان کی امان کی اتنی فکر کہ اک فرد کے لیے پوری پلٹن لگادی گئی اور عوام کی جان اتنی ارزاں کہ جو چاہے، جیسے چاہے اور جہاں چاہے دھرلے بقول شاعر
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہر چند کہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ
انہیں پھول بھی لگتا ہے تو پلاسٹر چڑھ جاتا ہے
ہمیں چھلنی بھی کردیں تو دکھ تک نہیں ہوتا
کیا کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے تمہارے جھوٹ سننے کے لیے آنے والوں کا خون اتنا ارزاں ہے کہ کنٹینرز سے گر کر ان کے تلے کچلے جاتے ہوئے ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے، ان کے گرد منڈلاتے ہوئے جب مرتے ہیں تو انہیں تم اپنے کتوں جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے اور اپنی جان کا خوف تمہیں اس قدر ہے کہ بلٹ پروف شیلڈز اور حجروں کے اندر سے مخاطب ہوتے ہو۔ یہ آٹے کے ایک تھیلے پر مرنے والے عوام یہ تمہیں بچا کر خود زخم کھانے والے عوام، یہ تمہاری چکنی چپڑی باتوں میں آ جانے والے عوام اس قدر غیر اہم ہیں کہ تم انہیں اپنے پہرے پر بٹھا کر خود بلٹ پروف حصار میں سفر و قیام کرتے ہو؟ انہی کے دیے ہوئے ٹیکسوں سے تمہاری حفاظت اور ان کی سڑکوں پر موت کے سودے ہوتے ہیں یہ کماتے ہیں تو تم کھا کر اطمینان سے سوتے ہو یہ سلسلہ کب سے ہے اور کب تک چلے گا؟
یہ بات آج کی نہیں یہ قصہ بہت پرانا ہے درد سے عوام کا اور ناز سے حکمران کا رشتہ بہت پرانا ہے جسے فیض نے سر وادی سینا میں تو کہیں بند لبوں کی بندش کو کھولنے میں اپنے خون جگر کو پانی کر دیا مگر وہ نہ سمجھے تھے نہ سمجھیں گے وہ تو حکمران ہیں انہیں جان پیاری ہے جو پاکستان کے معنی و مفاہیم میں کلمہ طیبہ کی نسبت کا اعلان ’’مقررانہ‘‘ جرأت سے کرکے اسی کلمہ طیبہ کے نفاذ کو بھول جاتے ہیں کہ جان بہت پیاری ہے باطل پرست کفر کے گماشتوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے کا شوق کسے ہے شہادت کی خواہش تک ہی بات رہے کافی ہے اس سے آگے کی کہانی رہنے دیجیے شہید ملت کے مکے کے بعد سے حکمران طبقے کے اندر مکے لہرانے کی جرأت رندانہ بھی گئی اب سکے لہرائے جانے لگے وہ سنہری رنگ کے کھنکتے ہوئے پھر وقت نے دیکھا کہ اس ملک میں مملکت کے نام کے ساتھ لفظ ’’اسلامی‘‘ کا اضافہ کر دیا گیا جب اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کا نادر وقت تھا اسی وقت سبز انقلاب کی پکار میں عوام کو سستی جنت کے سودے سے پیچھے ہٹا کر سستی روٹی کے پیچھے لگا دیا گیا تب سے آج تک اس عوام کی جان بھی اس سستی روٹی پر قربان ہوتی چلی گئی۔
پھر اس کے بعد ملک دو لخت ہوا تو کیا غم روٹی سستی ہے، خاندانی نظام اور ایمان خطرے میں پڑ گیا خیر ہے کھانا مل رہا ہے، عوام سے خطاب کے دوران تلاوت قرآن کا ہونا بھی قرار پایا ریفرنڈم میں شریعت اسلامیہ سے محبت کے دعوے بھی منوا لیے گئے اور ساتھ سودی نظام میں تر بتر خطبے بھی روا رکھے گئے افغان جہاد کے نام پر ایک تیر سے کئی شکار کیے گئے اور پھر خود بھی شکار ہو گئے شریف اور بی بی کی آنیاں جانیاں لگیں اور انہی باریوں کے دوران عوامی لیڈر حصار حفاظت میں اور عوام بندوق کے دہانوں پر، کشمیر کے لیے بولنا کراچی والوں کو مہنگا پڑا ہر حکومتی کشمیری بیان سے کراچی کی سڑکوں کو لہو سے نہلایا گیا کلمہ طیبہ کے اقراری اور ’’عملی مجرموں‘‘ کو جام شہادت پلا کر جنت الفردوس کا مکیں بنا دیا گیا اور حکمران حصار حفاظت میں تھے سو محفوظ رہے پھر تاشقند کی میز پر ملک کی غیرت بیچنے والوں کے ہم منصبوں نے کارگل کے شہداء کے لہو سے غداری کی کہ انہیں اپنی جانیں بچانی تھیں، قوم کی بیٹی عافیہ کو بیچ کر اپنی حکومت کو دوام بخشا گیا، ریمنڈ ڈیوس، ایمل کانسی سے لے کر ابھے نندن تک اپنی جانوں کی امان کی اک لمبی داستان تھی جو لال مسجد کی بچیوں کے لہو سے، بارہ مئی میں وکلا کے قتل عام سے، بلدیہ ٹاؤن کی سوختہ لاشوں سے، سانحہ ماڈل ٹاؤن اور آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے لہو سے سرخ ہے یہ داستان حکمرانوں کے وہن کی داستان ہے یہاں عوام کی جان کا کوئی پرسان حال نہیں یہاں اشرافیہ کی جان کو امان ہے عوام ساری بے امان ہے عوام کی جان کو روٹیاں کھا گئیں سستے اور مفت آٹے کی قطاریں کھا گئیں جو بچ گئے انہیں اپنے لیڈروں کی موت کا خوف کھا گیا۔
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘۔
کسی نے عرض کیا: ’’اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ اس روز تم زیادہ ہوگے لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہوگے اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا‘‘۔
کسی نے عرض کیا کہ: وہن کیا ہے؟
آپؐ نے فرمایا: ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت‘‘۔
(رواہ ابو داؤد)
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں آج دیکھا جائے تو ہمارے ہر اک گزرے، سابق، اور موجودہ تمام حکمرانوں کو موت کا خوف یعنی وہن کی بیماری لاحق ہے، الطاف، نواز لندن میں پناہ گزین ہیں زرداری اسپتالوں میں مقیم ہیں مگر یاد رہے کہ جب وقت آیا تو طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو بہاولپور کی فضاؤں میں، بی بی کو بلٹ پروف گاڑی کے باوجود اس کی کھلی چھت میں، اور مشرف کو پر آسائش اسپتال میں دبوچ لیا گیا بنی گالہ، جاتی امراء، ایون فیلڈ، بلاول ہاؤس، ہو یا گجر ہاؤس، ملک ہاؤس، نت ہاؤس، سردار ولا ہو یا چودھری ولا غریب کی جھونپڑی ہو یا امیر کی محل سرا ہر اک ذات کو موت کا مزہ چکھنا ہی ہے بلٹ پروف شیلڈ ہو یا کیبن و کمرے کہاں تک بھاگے گا یہ انسان کہ جو منہ سے کہتا ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین اور اپنی حفاظت پر بٹھا رکھے ہیں اس نے ملک بھر کے شیطانی نائبین و حلقہ ٔ نازنین
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
ان حکمرانوں کو وہن اور عوام کو روٹی کا ’’ہوکا‘‘ کھا گیا عوام کو روٹی کھانے کے لیے جینا ہے اور حکمرانوں کو موت سے بچنے کے لیے جینا ہے ان دونوں کی زندگی کے مقاصد تبدیل کرنا ازحد ضروری ہے جس دن یہ عوام وخواص اس شعر کی صورت ڈھل جائیں گے کہ
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
تو پھر وہ زمانے میں معزز ہو کر علامہ اقبال کے اس خواب کو پورا کر سکیں گے کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر