سعدیہ قریشی
چند سال پیش تر اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی نے فیصلہ کیا کہ مسلم ممالک میں جنگی حالات اور قدرتی آفات کے نتیجے میں یتیم ہونے والے بچوں کی کفالت کے حوالے سے آگاہی کے لیے پندرہ رمضان المبارک کو یوم یتامیٰ کے طور پر منایا جائے۔ جب گھر کا کفیل دنیا سے چلا جائے تو زندگی میں پیچھے رہ جانے والوں کے لیے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں ہوتی۔ ایسے میں او آئی سی کا یہ فیصلہ سراہے جانے کے لائق ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ملکوں میں 15 رمضان یتیم بچوں کے حوالے سے منایا جائے۔ مقصد یہی ہے کہ یتیم بچوں کے حقوق کے بارے میں سوچا جائے معاشرہ یتیم بچوں کے حوالے سے اپنے فرائض سے آگاہی حاصل کرے، ہر صاحب استطاعت شخص کسی نہ کسی یتیم کی کفالت اور سرپرستی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ اسلام میں یتیموں کے حقوق کے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ رسول پاکؐ کی یہ مشکبار حدیث ہم سب کی یاد داشتوں کا حصہ ہے کہ قیامت کے روز یتیم کی کفالت کرنے والا اس طرح سے میرے قریب ہوگا جیسے یہ دو انگلیاں ایک ساتھ ہیں یہ فرماتے ہوئے آپؐ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو اکٹھا کر کے دکھایا۔ یتیم بچے کی کفالت خلوص اور دیانت داری سے کرنے والوں کو جنت کی بشارت دے گئی ہے اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہوگی۔ قرآن پاک میں یتیموں کے حقوق کے حوالے سے اکیس آیات موجود ہیں بار بار یتیموں کے حوالے سے انصاف کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے لیکن یہ انسانوں کا معاشرہ ہے جو ہوس زر کے اسیر ہیں جن کے اندر ناشکری ہے، خود غرض فطرت انہیں اپنے مفاد کا اسیر رکھتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں یتیموں کے حقوق غصب کرنے کی مثالیں عام ہیں۔ خاندانوں کے اندر اگر کوئی یتیم ہو اچھے بھلے اثر رسوخ والے رشتے دار ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے اور حق کھانے کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ دو ایسی یتیم بچیوں کو جانتی ہوں جن کے والدین آگے پیچھے ناگہانی طور پر وفات پا گئے دو بڑی بہنوں کی شادی ہوگئی دو چھوٹی بہنیں شادی ددھیال کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان کمزور یتیم بچیوں کے خلاف سب خاندان اکھٹا ہے جس میں دادی چچا تایا اور دیگر رشتہ دار موجود ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ والد کی جائداد میں جو شرعی حصہ ان کا بنتا ہے اسے بھی غصب کر لیا جائے۔ سو ایسے سماج میں جہاں یتیموں کے سگے رشتے بھی جائداد کے لالچ میں انہیں اکیلا چھوڑ دیں وہ لوگ کس قدر قیمتی ہیں اس معاشرے کے لیے جو جو آگے بڑھ کر یتیموں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور یتیموں کی کفالت کو اپنے لیے عین سعادت سمجھتے ہیں۔
الخدمت فائونڈیشن کے اہل درد یتیمی کی دھوپ میں جلتے لاوارث بچوں کی مسیحائی کا فریضہ سرانجام دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یتیم بچوں کی کفالت و پرورش و سرپرستی کے حوالے سے الخدمت کے شاندار اور جامع پروگرام ہیں جن کی تفصیل پڑھتے ہوئے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ جہاں ہر طرف خود غرضی اور مفاد پرستی کے کانٹے جنگل کے صورت اُگ آئے ہوں، وہاں بے غرض ہمدردی اور خلوص کے یہ پھول روح مہکا دیتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن کا یتیم بچوں کی پرورش اور کفالت کا پہلا پروگرام آرفن فیملی سپورٹ پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت ان کم وسیلہ یتیم بچوں کو جو اپنی مائوں اور اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں اور الخدمت سپورٹ کرتا ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان اور فاٹا کو شامل کرکے انیس ہزار نو سو تہتر۔ یتیم کی کفالت کی جاتی ہے ایک بچے کی کفالت پر پانچ ہزار پانچ سو روپے ماہانہ خرچ ہوتا ہے۔ پھر ان یتیم بچوں کی مائوں کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے کے لیے الخدمت ان کو ہنر سکھانے کا انتظام بھی کرتا ہے ساتھ ہی 75 ہزار روپے تک قرض حسنہ بھی دیا جاتا ہے کہ ہنر سیکھنے کے بعد یہ اپنا کاروبار شروع کر سکتی ہیں۔ چائلڈ مدر کریکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت یتیم بچوں کی مائوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کردار سازی کیسے کریں۔ ان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کس طرح اس نہج پر کریں کہ وہ معاشرے کے مضبوط اور کارآمد شہری بن سکیں۔
آغوش ہومز الخدمت کا ایک اور شاندار منصوبہ ہے۔ جو لاوارث یتیم بچوں کو اقامتی سہولت دیتا ہے۔ پاکستان بھر میں 21آغوش ہوم کام کر رہے ہیں۔ یہاں یتیم بچوں کی کردار سازی، تعلیم اور زندگی کے تمام معاملات کی سرپرستی الخدمت کے ذمہ ہوتی ہے۔ ایک بچے پر ماہانہ بیس ہزار روپے کے اخراجات ہوتے ہیں۔ الخدمت نے ترکی کے اندر شام کے یتیم بچوں کے لیے بھی ایک آرفن ہائوس بنایا ہے جہاں پر سولہ سو چھتیس یتیم شامی بچوں کی کفالت ہورہی ہے۔ پاکستان میں مزید سات آغوش سینٹرز کی تعمیر کا کام جاری ہے اپنی زکوٰۃ اور صدقات الخدمت کے آرفن کیئر پروگرام میں دے کر دنیا اور آخرت کی کامیابی سمیٹ سکتے ہیں۔ یتیموں کے عالمی دن کے موقع پر مجھے بچیوں کے یتیم خانہ کاشانہ کی ظلم گزیدہ بچیاں یاد آرہی ہیں جنہیں سرکاری سرپرستی میں جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اس ہولناک ظلم پر آواز والی کاشانہ کی سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف تھیں اس سچ کی سزا بھی اس نے نوکری سے معطل کیے جانے۔ سمیت کئی صورتوں میں بھگتی۔ اتفاق ہے کہ یوم یتامی ٰ پندرہ رمضان پر ہائی کورٹ میں اسی کیس کی سماعت ہورہی ہے۔ جس طرح کا ہمارا عدالتی نظام ہے ان سے انصاف کی توقع کرنا عبث ہے۔ پاکستان کے ہر ضلعے میں سرکاری یتیم خانے موجود ہیں جو کروڑوں روپے کے سرکاری فنڈ سے چلتے ہیں لیکن ان یتیم خانوں میں رہنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اس پر دبیز پردے پڑے رہتے ہیں کہ اس میں کچھ با اثر پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں۔ آپ کے آس پاس خاندان میں اگر کم وسیلہ یتیم بچے ہیں تو ان کے سر پر ہاتھ رکھیں اور حسب استطاعت اپنے مال سے ان کی مالی مدد کریں بحیثیت مسلمان یہ ہم پر فرض ہے۔ (بشکریہ 92نیوز)